Saturday, 1 October 2016
مران خان، یہودی ایجنڈہ، اور حکیم محمد سعید۔۔۔یوسف خان
امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی اپنی کتاب حجة اللہ البالغہ میں رقمطراز ہیں کہ “وہ لوگ جو دنیا میں رب کے مبعوث انبیاء اکرام علیھم السلام کے بتائے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے انسانی نظام کی اصلاح کی کوششوں میں مصروف عمل رہتے ہیں تو رب العالمین ان زعماء امت کے دلوں میں اچھائی اور برائی کی پہچان کے لئے خاص الہامات کا نزول فرماتے ہیں” انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے کیا چیز اچھی اور کیا چیز بری ہے اس کی پہچان اللہ کے ولی کو بہت جلد ہوجایا کرتی ہے، فارسی کے مقولہ
قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید
کا مفہوم بھی یہی بنتا ہے کہ
قلندر جو کچھ دیکھتا ہے وہ عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی
کچھ ایسا ہی منظر تھا جب 2011 کے ایک دن جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن جیو نیوز کے اسٹوڈیو میں تشریف فرما تھے، اور مولانا فضل الرحمن نے یہودیوں کی تیار کردہ سازش کو بھرپور طریقے سے بھانپتے ہوئے ان کے ایجنڈے کو ایکسپوز کرنے کا اعلان کردیا۔ پاکستان کا ایک معروف صحافی پروگرام جرگہ میں دوران انٹرویو حیران و پریشان مولانا فضل الرحمن کی طرف دیکھ رہا تھا اور پورے ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ انٹرویو لینے والا صحافی بهی حیران تھا کہ ایک دینی سیاسی جماعت کا سربراہ کس طرح یہ دعویٰ کررہا ہے، لیکن بات وہی ہوتی ہے جو رب کو منظور ہوتی ہے۔ مولانا نے کہا تھا کہ میرا وجدان کہتا ہے کہ عمران خان یہودی ایجنڈہ لے کر اس ملک میں آیا ہے اور تحریک انصاف مشرقی تہذیب کی پامالی کے لئے یہودیوں اور بین الاقوامی قوتوں کا مہرے کے طور پر پاکستان کی نوجوان نسل پر حملہ آور ہورہی ہے، اور فضل الرحمن کبھی غیر ذمہ داری سے بات نہی کرتا۔
پھر کیا تھا کہ پورے ملک میں ملحد اور دین دشمن طبقات و اداروں نے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے خلاف ایک نا ختم ہونے والا طوفان بدتمیزی برپا کردیا اور عمران خان تحریک انصاف کی چھتری تلے اپنے آقاؤں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف رہا اور مصروف ہے، جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے پاکستان کے ہر فورم پر عمران خان کے یہودیت و بین الاقوامی قوتوں کے ایجنڈے کو موضوع بحث بنا دیا اور اب وہ وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن کی ایک ایک بات کی تائید مولانا کے سیاسی مخالفین کرتے چلے گئے۔ عمران خان کی وزارت عظمی کے لئے تڑپ اور دھاندلی کے آئڈیل نعروں کے شور میں کسی انگلی کے منتظر ہونے کے معاملات واضح ہونا شروع ہو گئے۔
جنگ آزادی میں انگریزوں کی خدمت کرنے والے محمود قریشی کی اولاد سے لے کر سقوط ڈھاکہ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جنرل عمر کے بیٹے اسد عمر تک سب کسی ان دیکھی انگلیوں کے اشاروں سے تحریک انصاف کی گود میں گرتے چلے گئے،،،،، موجودہ سربراہ قادیانی مرزا مسرور سے سرعام ووٹ مانگنے کی بات ہو یا پھر کینیڈا کے سفر میں مرزا مسرور کو ختم نبوت قانون کے ختم کرنے کی یقین دہانیاں، قادیانی ماہر معاشیات کو اپنی حکومت کا وزیر خزانہ بنانے اعلان، تحریک انصاف کے پروگرامز یا ریلیوں میں “یونس الگوہر ” کی قد آدم تصویریں لئے اس کے سپورٹر ہوں یا پھر 120 دن کا وہ دھرنا جس میں قوم کی عزت آبرو کا جنازہ نکال دیا گیا، امریکہ اور مغربی ممالک سے دھرنوں اور ریلیوں کے لئے فنڈز سے لیکر لندن میں گولڈ اسمتھ کے بیٹے کی الیکشن کمپیئن تک ؛ ہر ہر موڑ پر مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کو وقت نے مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا،
ایک طرف مغرب نواز میڈیا اور تحریک انصاف اینڈ کمپنی مولانا فضل الرحمن کی کردار کشی میں مسلسل مصروف تھیں تو دوسری جانب کچھ نادیدہ قوتیں مکمل زور لگا رہی تھیں کہ کسی طریقہ سے مولانا فضل الرحمن کو اس مؤقف سے پیچھے ہٹا دیا جائے۔ اپنے تمام تو حربوں میں ناکامی کے بعد پھر پاکستان مخالف تحریک طالبان کے ذریعے مولانا کو باقاعدہ راستے سے ہٹانے کی گھناؤنی کوششیں کی گئیں۔ کوئٹہ صادق شہید گراؤنڈ میں پیش آنے والا واقعہ کون بھول سکتا ہے؟ 2013 کے الیکشن سے قبل اور بعد ان نادیدہ قوتوں نے وہ ماحول بنا دیا کہ ایک پلے بوائے کو آزادی سے الیکشن کمپئن چلانے اور بعد الیکشن کے ہر قسم کے وسائل مہیا کردئے، تو دوسری جانب عمران خان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اسلام کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے ٹهیکیداروں کو کمال ہوشیاری سے استعمال کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ مغربی تہذیب کا نمائندہ تو اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ہر جگہ محفوظ رہا،،، لیکن لاکھوں علماء و طلباء کے نمائندے اور ملک پاکستان کے ایک محب وطن سیاسی شخصیت کو بم حملوں کا شکار بنایا جاتا رہا، لیکن اس کے باجود بھی مولانا فضل الرحمن کے مؤقف میں کوئی لچک نہ آئی۔
مولانا فضل الرحمن کے اپنے مؤقف پر اثبات اور استقامت نے آنے والے وقت میں کے پی میں تمام منصوبوں اور سازشوں کو کھول کرکے رکھ دیا، کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے حامل صوبہ کو مکمل طور پر غیر ملکی این جی اوز کے حوالے کردیا گیا۔ پورے صوبے کے تعلیمی اداروں کو غیر ملکی برطانوی این جی اوز کے حوالے کرکےمعصوم مسلمان بچوں کے ذہنوں میں مغربی تہذیب کے بیج بونے کے کام پر لگا دیا ، غیرملکی این جی اوز کے فنڈز اور صوبے میں عمل دخل نے کے پی کے کی عوام کی آنکھیں کھول دیں۔
لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بھی کسی کو اس سازش کا کبهی ادراک ہوا تھا ؟،، کہ پاکستان کو یہودیت کی کالونی بنانے کے لئے کس شخصیت کا انتخاب ہوچکا ہے ؟ جی ہاں 2013 کے الیکشن سے 17 سال قبل پاکستان کے نامور و مستند حکیم و طبیب اور پاکستان کی تاریخ میں ایک باعتماد نام سابق گورنر سندھ “حکیم محمد سعید ” 1996 میں اپنی تصنیف میں اس شخصیت کا ذکر کر گئے ہیں، (اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ ان کے درجات بلند فرمائے) حکیم محمد سعید جو اپنی طب و حکمت اور تقویٰ کی وجہ سے پاکستان کے ہر طبقہ فکر میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلند کردار اور وسیع نظر کے حامل حکیم محمد سعید نے 19 جولائی 1993 سے 01 جنوری 1994 تک صوبہ سندھ میں گورنر کے فرائض سرانجام دئیے ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے
حکیم محمد سعید رحمہ اللہ نے اپنی شہادت سے دو سال قبل 1996 میں اپنی کتاب “جاپان کی کہانی” شائع کی اور اس کتاب میں سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید نے “عمران خان کی یہودیت نوازی کا پردہ مکمل طور پر چاک کردیا تھا۔ حکیم محمد سعید اس یہودی سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”پاکستان کے ایک عمران خان کا انتخاب ہوا ہے، یہودی ٹیلی ویژن اور پریس نے عمران خان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا ہے، سی این این ، بی بی سی سب عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ برطانیہ جس نے فلسطین تقسیم کرکے یہودی حکومت قائم کرائی وہ ایک طرف عمران خان کو آگے بڑھا رہا ہے اور دوسری طرف آغا خان کو ہوائیں دے رہا ہے۔ برطانیہ الطاف حسین کا مربّی بنا ہوا ہے اور اب نکیل یہودیوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے اور کانوں کان خبر نہیں ہورہی۔ اب عمران خان کی شادی یہودیوں میں کرا دی ہے، پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو کروڑوں روپے دئیے جا رہے ہیں تاکہ عمران خان کو خاص انسان بنا دیا جائے۔ وزارت عظمی پاکستان کے لئے عمران خان کو ابھارا جا رہا ہے محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے تو عمران خان پر برسی تھیں، مگر اب انہوں نے عمران خان کے خسر کو دعوت پر مدعو کیا ہے۔ اسی عنوان پر امریکی نائب صدر نے عمران خان کو لنچ پر بلالیا، نوجوانو کیا اب پاکستان کی آئندہ حکومت یہودی الاصل ہوگی ؟”
شاید حکیم سعید کا یہ مؤقف حق کا وہ اظہار تھا جس کے بعد انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ کراچی میں شہید کردیا گیا، جس پر پورا پاکستان اور خصوصاً کراچی کئی دن تک آنسو بہاتا رہا۔ یہ سوال بھی ہنوز اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا کہیں حکیم محمد سعید کو اسی سچ بولنے کی سزا تو نہیں دی گئی ؟ اور پھر آپ اندازہ لگائیں کہ کس قدر واضح انداز میں وقت کے ایک دانشور اور درد دل رکھنے والی شخصیت نے 1996 میں جس وقت عمران خان ایک پاپولر سیاستدان نہیں تھا، لیکن مستقبل میں عمران خان کی یہودیت نوازی اور بین الاقوامی قوتوں کی جانب سے عمران کی مبینہ تربیت کا پردہ چاک کردیا تھا، لیکن افسوس اس وقت کسی نے حکیم سعید کی بات پر کان نہیں دھرے بالآخر جب اس عالمی سازش کے کرتا دھرتاؤں نے باقاعدہ عملی پروگرام شروع کیا اور ایک منظم منصوبے کے تحت پاکستان میں اپنے نمائندے کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے منصوبے پر عمل در آمد شروع کیا تو اس گہری سازش کو بے نقاب کرنے اسلامی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے گھناؤنے پلان، یہودی فنڈ زدہ تنظیم ، قادیانیوں اور گوہریوں کے حمایت یافتہ اس فتنہ کا راستہ روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمن تن تنہا میدان عمل میں کود پڑا، اور ہر ہر فورم پر اس سازش کو شکست سے دوچار کیا، پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا پاکستان کے سرکاری اداروں پر حملہ 120 دن کا دھرنا اور بار بار انگلی کے اٹھ جانے کا ذکر یہ تمام اس “گرینڈ پلان ” کا حصہ تھا جسے عمران خان اور اس کے اسپانسرز نے ” لندن ” میں بیٹھ کر تیار کیا تھا۔ یہودی قوتیں فیصلہ کرچکی تھیں کہ 2013 میں پاکستان ان کے نمائندے کے سپرد کردینا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن کے بروقت میدان عمل میں اتر جانے سے عشروں پر محیط سازش دم توڑ گئی لیکن جاتے جاتے ایک صوبہ کو ضرور نشانہ بنا گئی اور آج جب کہ صوبہ کے پی کے مکمل طور پر غیرملکی این جی اوز کے نرغے میں گھر چکا ہے تو وہاں کی عوام کی ایک بار پھر امید نگاہ مولانا فضل الرحمن بن چکا ہے، اور ان شاء اللہ آئندہ الیکشن میں کے پی کے کی عوام تحریک انصاف کو بھی تحریک مساوات کی طرح ایک قصہ پارینہ بنا دے گی، لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لئے لکھ دیا جائے گا کہ مدرسہ کی چٹائی سے اٹھنے والے ایک مولوی نے تن تنہا اس ملک میں پورے یہودی ایجنڈے کو صرف شکست ہی نہیں دی، بلکہ ہمیشہ کے لئے دفن بھی کردیا تھا۔
اور آج ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں 30 ستمبر کو رائیونڈ کی طرف مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ اوپر بیان کردہ تمام حقائق اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے فاضلانہ تجزئے کی روشنی میں آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ عمران خان وزارت عظمی کی روز بروز ابھرتی خواہش میں اس ملک کی تہذیب و روایات کو کس طرح سے پامالی کی طرف لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم دینی و مذہبی سیاست کے علمبرداروں کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ ایک طرف اپنی مشرقی روایات کا تحفظ ہوسکے اور مغربی تہذیب کے حامیوں کو ٹھکرایا جا سکے،اور دوسری طرف ملک کے جذباتیت سے مغلوب نوجوانوں کو شدت پسند اسلامی سوچ سے بھی بچایا جا سکے، آخر میں صرف اتنا گزارش ہے کہ پی ٹی آئی سے منسلک وہ تمام جذباتی نوجوان ایک بار پھر ضرور سوچیں کہ کہیں وہ نئے پاکستان کے خوشنما نعرے میں غیروں کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ؟ خاص طور پر حکیم محمد سعید کی بیان کردہ حقیقت پر ہر شخص کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اس لئے کہ حکیم محمد سعید نے بھی آخر میں یہی فرمایا تھا
میرے نونہالو! دنیا میرے آگے ہے ! میں اب دنیا کے ہر انسان کی اچھائی کے لئے سوچنے کے قابل ہوں اور دنیا کے ہر انسان کی خدمت کے لئے وافر جذبات رکھتا ہوں۔
Thursday, 29 September 2016
پاکستانی سپہ سالار نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ۔۔۔!
پاکستانی سپہ سالار نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ۔۔۔! بھارت آیا تو تھا بڑی شان سے مگر پاکستان نے کیا حال کیا؟ تفصیلات منظر عام پر
مظفرآباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی فوج نے جمعرات کےروزلائن آف کنڑول
پربھارتی فوج کامقابلہ کرتے ہوئے 8بھارتی فوجیوں کوہلاک جبکہ 1فوجی کوزندہ
پکڑلیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستانی فوج نے جمعرات کےروزلائن آف کنڑول
پربھارتی فوج کامقابلہ کرتے ہوئے 8بھارتی فوجیوں کوہلاک جبکہ 1فوجی کوزندہ
پکڑلیا۔فوجی ذرائع کے مطابق پاک فوج کے ہاتھوں زندہ پکڑاجانے والا فوجی
شدید زخمی تھااوروہ اپنے دیگرساتھیوں کے ہمراہ بھاگ نہیں سکااورپاک فوج نے
اس کوپکڑلیا۔اس بات کاانکشاف ایک نجی ٹی وی کے معروف اینکرپرسن حامدمیرنے
انکشاف کیاکہ پاکستانی فوج نے دوسیکٹروں میں کل 14بھارتی فوجیوں کوہلاک
کیاجبکہ اس نجی ٹی وی کے شومیں شریک پاک فوج کے سابق اعلی فوجی
افسرمیجرجنرل (ر) اعجازاعوا ن نے تصدیق کردی ۔پاک فوج کے ہاتھوں زندہ پکڑے
جانے والے بھارتی فوجی کانام چاندنوبابولال چوہان ہے اوراس کوپاک فوج نے
ایک نامعلوم مقام پرمنتقل کردیاہے ۔بھارتی فوج کے اس پکڑے جانے والے فوجی
کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں کہ اس کی عمر 22سال ،جبکہ اس کامذہب
ہندواوروہ بھارتی ریاست مہاشڑاکارہائشی ہے ۔جبکہ لائن آف کنڑول جوکہ
پاکستانی حدود میں ہے اس میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی لاشیں بھارتی
فوج اپنے ساتھ نہیں لے جاسکی بلکہ ادھرہی چھوڑکربھاگ گئی ۔
قبائلی عوام کی حالت کشمیریوں سے بھی بدتر ہے،مولانا فضل الرحمٰن
سلام آباد ۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ
مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام کی حالت کشمیری عوام سے بھی
بد تر ہے، قبائلی عوام کو افغانستان کا باشندہ قرار دیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن قومی
اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف
ورزی کر کے بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے اسی مقصد کے لیے مودی
حکومت 70 سال کے بعد پاکستان کے بارے میں نئے رویوں پر مبنی پالیسی بنا رہا
ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا میں نے آج سے
پندرہ سال پہلے ہی کہا تھا کہ ہندوستان اپنا دفاعی اثر ورسوخ افغانستان تک
بڑھا رہا ہے،آج وہی ہو رہا ہے اور بھارت ہمیں گھیر رہا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ بتایا جاتا ہے کہ 10
لاکھ آئی ڈیپز ہیں، اڑھائی لاکھ افغانستان چلے گئے ہیں، چارلاکھ ابھی تک
فاٹا سے نکلے ہی نہیں، یہ کون سے اعداد وشمار ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں پہلے ہی
سرحدی مشکلات کا سامنا ہے قبائلیوں اور دیگر قومیتوں کے لیے مشکلات نہ
بڑھائی جائیں قبائلی عوام کو آج بھی طالبان کی پرچیاں مل رہی ہیں اور اگر
طالبان کی پرچیاں مل رہی ہیں تو بھر طالبان کے خاتمے کا دعوی کیسے کیا جا
سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ صوفی محمد آئین کو نہیں
مانتا تو جیل میں ہے تو اس سے معاہدہ کس نے کیا تھا؟ صوفی محمد کے ساتھ
ماورائے ایک آئینی معاہدہ کرنے والے تو سب آئین جانتے تھے، پھر انہوں نے
کیسے دست خط کردیے یہ جانتے بوجھتے کہ یہ شخص آئین کو نہیں مانتا سچ یہ ہے
کہ ہم سے بھی بہ حثیت مجموعی غلطیاں ہوئیں ہیں۔
Sunday, 11 September 2016
حب شیرانی نہیں بلکہ بغض فضل الرحمن کیا جارہا ہے "تحریر:یوسف خان"
محترم دوست جناب انعام رانا صاحب نے جب سے مکالمہ کے نام سے اپنی ویب سائٹ
بنائی ہے اور مکالمہ کی دعوت عام دی ہے کچھ احباب کو گویا موقع ہاتھ آگیا
کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی خواہشات کا
نشانہ بنائیں اور حد تو یہاں تک کردی گئی کہ اپنی ذہنی آسودگی کے لئے جماعت
ہی کی ایک سینئر رھنماء اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا محمد خان
شیرانی کو بطور کاندھا استعمال کرکے فائرنگ کی جارہی ہے، کل مکالمہ ویب
سائٹ پر ایک تحریر نظر سے گزری مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان
شیرانی کے اختلاف کے عنوان سے، ویسے تو اس طرح کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے
جواب کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ صاحب تحریر نے تحریر کی ابتداء
میں ہی ایک پیمانہ وضع کردیا تو سو اس لئے اب اس تحریر کا ہم اسی پیمانے
میں جواب دے رہے ہیں امید ہے کہ بہت ساروں کی تشفی ہوگی اور اگر پھر بھی
تشفی نہ تو ایسے لوگوں کے لئے ہم "کراچی نفسیاتی ھسپتال" کا مشورہ دیتے ہیں
اور ڈاکٹر سید مبین اختر ہی ان کا اچھا علاج کرسکتے ہیں"
سو جناب آگے چلتے ہیں
کہا یہ جا رہا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی " عمر اور تجربہ" میں" قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن" سے بڑے ہیں اس لئے وہ قیادت کے زیادہ حقدار ہیں،
جناب عالی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے ایک پیمانہ مقرر کردیا اس لئے کہ جب اختلاف رائے میں پیمانہ مقرر ہوجائے تو بات کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے، تو آگے بڑھتے ہیں آنجناب نے پیمانہ مقرر کیا ہے "عمر اور تجربہ"
تو جناب من
آپ دنیا کی مختلف اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو نظر آئے گا کہ قیادت کا انتخاب عمر میں بڑھوتی کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ تجربہ معاملہ فہمی، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحتیوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، آپ کے طے کردہ پیمانہ کی روشنی ہم یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی عمر میں اور تجربہ میں بڑے ہیں
لیکن ٹہرئیے اگلی بات سنئے(پیمانہ آپ کا ہے نتیجہ ہم بتاتے ہیں )
پھر تسلیم کرلیجئےکہ مولانا محمد خان شیرانی اپنے تجربے اور عمر کی بنیاد پر کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے تجربہ ہی کی بنیاد پر "نوجوان مولانا فضل الرحمن " کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کرلی تھی جب جمعیت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی تھی،
اگر تب مولانا محمد خان شیرانی کا انتخاب مولانا فضل الرحمن تھا تو آج آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مولانا محمد خان شیرانی کے تجربہ و عمر کو بنیاد بنا کر آپ جمعیت کی قیادت پر رکیک حملے کریں،
اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ مولانا محمد خان شیرانی 1985 سے لے کر آج تک اپنے اسی تجربہ کی بنیاد پر ثابت کرتے آئے ہیں کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ قیادت کا حقدار آج بھی مولانا فضل الرحمن ہے،
جناب عالی آپ نے بات کی کہ مولانا محمد خان شیرانی کا ہمیشہ سے مولانا فضل الرحمن سے اختلاف رہا ہے،
تو پھر تو آپ جناب کو جمعیت کو داد دینی چاہیے تھی کہ جمعیت پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے کہ جس میں اختلاف کی اجازت بھی ہے اور احترام بھی --- کہ اس جماعت کے رھنماء بلا جھجھک اپنے مؤقف پر اظہار خیال کرتے ہیں یہ جمعیت علماء اسلام ہی ہے کہ مجلس عمومی کے اجلاس میں مولانا محمد خان شیرانی اپنے تحفظات بیان کرتے ہیں اور امیر جماعت ان کے تحفظات کو مکمل طور پر سنتے ہیں
اور ہاں
یہ نہیں ہوتا کہ عمر اور تجربے میں اپنے سے کئی گنا بڑے سیاسی لیڈر (جاوید ہاشمی) کو کہنی مار کر جماعت سے نکال دیا جاتا ہے،
آپ نے بات کی کہ
مولانا عطاء الرحمن صوبائی الیکشن ہارنے کے باوجود بھی سینیٹ کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں
میرے پیارے بھائی
سب سے پہلے آپ کی دیانت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اور آپ کے پوائنٹ پر آنے سے قبل چند باتیں تحدیث نعمت کے طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں کم از کم آپ نے یہ اعتراض کرکے جانے یا انجانے میں جمعیت کے "جمہوری جماعت ہونے " کا تو اعتراف کرلیا،
اور یہ بھی اعتراف کرلیا کہ جمعیت میں جمہوریت اس قدر مضبوط ہے کہ جمعیت کے الیکشن میں کوئی سفارش یا تعلق نہیں دیکھا جاتا یہاں مولانا فضل الرحمن کا بھائی الیکشن ہار بھی سکتا ہے اور مولانا فضل الرحمن پانچ سے زائد بار بلا مقابلہ امیر بھی منتخب ہو سکتا ہے،
اب آپ کہیں گے یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے تو جناب من اگر مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ بنا کر جماعت پر قبضہ کئے بیٹھا ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کا بھائی کبھی کے پی سے جماعتی الیکشن نہ ہارتا،
اگر جمعیت میں صوبائی سطح پر کوئی دھڑا بندی کا ماحول ہوتا تو پینتیس سال سے زائد صوبائی امارت پر فائز رہنے والے مولانا محمد خان شیرانی کبھی بھی صوبائی امارت کا انتخاب نہ ہارتے
میں شکرگزار ہوں آپ کا کہ آپ نے جمعیت کے جمہوری جماعت ہونے پر مہر ثبت کردی،
باقی جہاں تک بات ہے مولانا عطاء الرحمن کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا تو آپ کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن ٹکٹوں کی تقسیم کے منصب پر نہیں بلکہ امت مسلمہ کی ترجمانی کے منصب پر فائز ہیں ٹکٹ کے دینے یا نہ دینے کا اختیار کے پی کے کی صوبائی جماعت کے پاس تھا اور اسی صوبائی جماعت نے ہی انہیں ٹکٹ جاری کیا تھا،
آگے بڑہئے
بات کی گئی کہ مولانا لطف الرحمن کے پی اسمبلی کے ممبر ہونے کی؟؟
تو میرے بھائی یہ سوال آپ کو جماعت سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ PK-66 کی عوام سے کرنا چاہئیے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو کیوں اسمبلی میں بھیجا اور اگر آپ کو عوام سے اپنے ممبر اسمبلی کے انتخاب کے اختیار پر سوال اٹھانے کا حق نہیں ہے تو براہ کرم اپنا جواب بھی اسی جگہ ڈال دیجئے جہاں سے یہ سوال آیا تھا۔
آگے چلتے ہیں
آپ نے مولانا کی دوسرے بھائی ضیاء الرحمن کے بارے اعتراض کیا تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ضیاء الرحمن نے اپنا کیرئر پی ٹی سی ایل سے ملازمت میں شروع کیا تھا اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کے زینے چڑھے ہیں ہم اس سے قبل بھی کئی بار متعدد فورمز پر یہ بات رکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ ضیاء الرحمن کو خلاف ضابطہ و قانون ترقی دی گئی ہے اس کے لئے ہائیکورٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں آئیے اپنے آپ کو سچا ثابت کیجئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور اگر آج ضیاء الرحمن ایک سرکاری نوکری کررہا ہے تو جان لیجئے یہ بھی مولانا فضل الرحمن کی پاک صاف سیاست پر واضح دلیل ہے آخر کونسا پاکستان کا ایسا لیڈر ہے جو ملک کا معروف سیاستدان ہو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ مؤثر پارٹی کا قائد ہو اور اس کا بھائی ایک معمولی سی سرکاری نوکری پر ملک و قوم کی خدمت کررہا ہو
اور پھر آپ نے بات کی مولانا عبید الرحمن کے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ہونے کی
تو جناب عالی کیا ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بننے کے لئے کسی سیاسی رھنماء کا رشتہ دار ہونے کی ضرورت ہے یا اس کے لئے آئین و قانون میں کوئئ ضابطہ بھی موجود ہے؟؟؟ اور یاد رکھئے اگر صرف سیاسی رھنما کا بھائی ہونا ہی کافی ہوتا کسی عہدے کے لئے تو مولانا فضل الرحمن اپنے بھائیو عبید الرحمن اور ضیاء الرحمن کو ڈسٹرکٹ کونسل یا ڈی سی نہ لگواتا بلکہ وہ چاہتا تو ان کو گورنر کے عہدے پر بھی بٹھا سکتا تھا،
عجیب بات ہے آخر انصاف کا کیا پیمانے مقرر کررکھا ہے آنجناب نے
مجھے بتائیں تو سہی کہ مولانا فضل الرحمن کا بھائی سرکاری نوکری کرے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بن جائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟؟
وہ الیکشن لڑے عوام کے سامنے خود کو پیش کرے کہ مجھے خدمت کے لائق سمجھتے ہو تو منتخب کرو عوام منتخب کرے لیکن آپ کے نزدیک اس کا انتخاب بھی حرام ؟؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا مدرسہ میں پڑھائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا الیکشن جیت جاتا تب بھی آپ کے نزدیک حرام ہی ٹہرتا اگر وہ الیکشن ہار گیا تب بھی وہ آپ کے نزدیک حرام ہی رہا؟؟؟؟
ارے مجھے بتاؤ تو سہی کیا کوئی ایسی پوسٹ یا جاب ہے بھی جو مولانا کے بھائیوں اور بیٹوں کے لئے آپ کے نزدیک حلال بھی ہو ؟؟؟
انصاف کا کیا دوغلا پن ہے کہ ایک سیاسی لیڈر
آٹھ سیٹوں بیک وقت الیکشن ہار جائے لیکن وہ پھر بھی ہیرو رہے؟؟
وہ چار چار ماہ اسمبلی کو گالیاں دیتے رہیں لیکن ان کی تنخواہ اور کمائی حلال رہے جو اپنے علاقے کی عوام کے لئے چوبیس گھنٹے زندگی وقف کرچکے ہوں ان کے لئے سب کچھ حرام ؟؟؟
جناب عالی صرف فیس بکی دانشور بن جانے سے آپ ہر کس و ناکس پر بھپتیاں کسنے کا کوئی حق نہیں رکھتے
آگے چلئے آپ نے آخری نکتہ میں جمعیت کے دستور میں ترمیم کی بات کی،
بظاہر آپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ دستوری ترامیم شاید پہلی مرتبہ ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جمہوری سیاسی پارٹی وقت کی نزاکت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے منشور و دستور میں ترمیم کرتی رہتی ہے اور جمعیت علماء اسلام بھی چاہے حضرت درخواستی کی امارت کا دور ہو یا اس سے قبل کا وقت کے تقاضوں کے مطابق دستور میں ترمیم کرتی رہی ہے، بلکہ حضرت قائد محترم کی امارت ہی کے دوران کئی مرتبہ دستور میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں اور ان تبدیلیوں میں حضرت شیرانی صاحب دامت برکاتہم کا باقاعدہ حصہ رہا ہے لہذہ آج کیسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دستوری ترامیم کسی شخصیت یا ذات کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہیں، جبکہ پورے ملک کی مجلس عمومی نے باقاعدہ ان کی منظوری دی ہے،
اگر اب بھی آپ جماعت پر یا قیادت پر اعتراض کرتے ہیں تو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ
"حب شیرانی نہیں بلکہ بغض فضل الرحمن بول رہا ہے"
اور بغض کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے لئے ڈاکٹر سید مبین اختر سے بجلی کے شاٹس لگوانے پڑتے ہیں،
"خان"
سو جناب آگے چلتے ہیں
کہا یہ جا رہا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی " عمر اور تجربہ" میں" قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن" سے بڑے ہیں اس لئے وہ قیادت کے زیادہ حقدار ہیں،
جناب عالی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے ایک پیمانہ مقرر کردیا اس لئے کہ جب اختلاف رائے میں پیمانہ مقرر ہوجائے تو بات کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے، تو آگے بڑھتے ہیں آنجناب نے پیمانہ مقرر کیا ہے "عمر اور تجربہ"
تو جناب من
آپ دنیا کی مختلف اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو نظر آئے گا کہ قیادت کا انتخاب عمر میں بڑھوتی کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ تجربہ معاملہ فہمی، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحتیوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، آپ کے طے کردہ پیمانہ کی روشنی ہم یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی عمر میں اور تجربہ میں بڑے ہیں
لیکن ٹہرئیے اگلی بات سنئے(پیمانہ آپ کا ہے نتیجہ ہم بتاتے ہیں )
پھر تسلیم کرلیجئےکہ مولانا محمد خان شیرانی اپنے تجربے اور عمر کی بنیاد پر کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے تجربہ ہی کی بنیاد پر "نوجوان مولانا فضل الرحمن " کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کرلی تھی جب جمعیت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی تھی،
اگر تب مولانا محمد خان شیرانی کا انتخاب مولانا فضل الرحمن تھا تو آج آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مولانا محمد خان شیرانی کے تجربہ و عمر کو بنیاد بنا کر آپ جمعیت کی قیادت پر رکیک حملے کریں،
اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ مولانا محمد خان شیرانی 1985 سے لے کر آج تک اپنے اسی تجربہ کی بنیاد پر ثابت کرتے آئے ہیں کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ قیادت کا حقدار آج بھی مولانا فضل الرحمن ہے،
جناب عالی آپ نے بات کی کہ مولانا محمد خان شیرانی کا ہمیشہ سے مولانا فضل الرحمن سے اختلاف رہا ہے،
تو پھر تو آپ جناب کو جمعیت کو داد دینی چاہیے تھی کہ جمعیت پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے کہ جس میں اختلاف کی اجازت بھی ہے اور احترام بھی --- کہ اس جماعت کے رھنماء بلا جھجھک اپنے مؤقف پر اظہار خیال کرتے ہیں یہ جمعیت علماء اسلام ہی ہے کہ مجلس عمومی کے اجلاس میں مولانا محمد خان شیرانی اپنے تحفظات بیان کرتے ہیں اور امیر جماعت ان کے تحفظات کو مکمل طور پر سنتے ہیں
اور ہاں
یہ نہیں ہوتا کہ عمر اور تجربے میں اپنے سے کئی گنا بڑے سیاسی لیڈر (جاوید ہاشمی) کو کہنی مار کر جماعت سے نکال دیا جاتا ہے،
آپ نے بات کی کہ
مولانا عطاء الرحمن صوبائی الیکشن ہارنے کے باوجود بھی سینیٹ کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں
میرے پیارے بھائی
سب سے پہلے آپ کی دیانت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اور آپ کے پوائنٹ پر آنے سے قبل چند باتیں تحدیث نعمت کے طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں کم از کم آپ نے یہ اعتراض کرکے جانے یا انجانے میں جمعیت کے "جمہوری جماعت ہونے " کا تو اعتراف کرلیا،
اور یہ بھی اعتراف کرلیا کہ جمعیت میں جمہوریت اس قدر مضبوط ہے کہ جمعیت کے الیکشن میں کوئی سفارش یا تعلق نہیں دیکھا جاتا یہاں مولانا فضل الرحمن کا بھائی الیکشن ہار بھی سکتا ہے اور مولانا فضل الرحمن پانچ سے زائد بار بلا مقابلہ امیر بھی منتخب ہو سکتا ہے،
اب آپ کہیں گے یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے تو جناب من اگر مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ بنا کر جماعت پر قبضہ کئے بیٹھا ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کا بھائی کبھی کے پی سے جماعتی الیکشن نہ ہارتا،
اگر جمعیت میں صوبائی سطح پر کوئی دھڑا بندی کا ماحول ہوتا تو پینتیس سال سے زائد صوبائی امارت پر فائز رہنے والے مولانا محمد خان شیرانی کبھی بھی صوبائی امارت کا انتخاب نہ ہارتے
میں شکرگزار ہوں آپ کا کہ آپ نے جمعیت کے جمہوری جماعت ہونے پر مہر ثبت کردی،
باقی جہاں تک بات ہے مولانا عطاء الرحمن کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا تو آپ کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن ٹکٹوں کی تقسیم کے منصب پر نہیں بلکہ امت مسلمہ کی ترجمانی کے منصب پر فائز ہیں ٹکٹ کے دینے یا نہ دینے کا اختیار کے پی کے کی صوبائی جماعت کے پاس تھا اور اسی صوبائی جماعت نے ہی انہیں ٹکٹ جاری کیا تھا،
آگے بڑہئے
بات کی گئی کہ مولانا لطف الرحمن کے پی اسمبلی کے ممبر ہونے کی؟؟
تو میرے بھائی یہ سوال آپ کو جماعت سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ PK-66 کی عوام سے کرنا چاہئیے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو کیوں اسمبلی میں بھیجا اور اگر آپ کو عوام سے اپنے ممبر اسمبلی کے انتخاب کے اختیار پر سوال اٹھانے کا حق نہیں ہے تو براہ کرم اپنا جواب بھی اسی جگہ ڈال دیجئے جہاں سے یہ سوال آیا تھا۔
آگے چلتے ہیں
آپ نے مولانا کی دوسرے بھائی ضیاء الرحمن کے بارے اعتراض کیا تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ضیاء الرحمن نے اپنا کیرئر پی ٹی سی ایل سے ملازمت میں شروع کیا تھا اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کے زینے چڑھے ہیں ہم اس سے قبل بھی کئی بار متعدد فورمز پر یہ بات رکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ ضیاء الرحمن کو خلاف ضابطہ و قانون ترقی دی گئی ہے اس کے لئے ہائیکورٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں آئیے اپنے آپ کو سچا ثابت کیجئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور اگر آج ضیاء الرحمن ایک سرکاری نوکری کررہا ہے تو جان لیجئے یہ بھی مولانا فضل الرحمن کی پاک صاف سیاست پر واضح دلیل ہے آخر کونسا پاکستان کا ایسا لیڈر ہے جو ملک کا معروف سیاستدان ہو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ مؤثر پارٹی کا قائد ہو اور اس کا بھائی ایک معمولی سی سرکاری نوکری پر ملک و قوم کی خدمت کررہا ہو
اور پھر آپ نے بات کی مولانا عبید الرحمن کے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ہونے کی
تو جناب عالی کیا ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بننے کے لئے کسی سیاسی رھنماء کا رشتہ دار ہونے کی ضرورت ہے یا اس کے لئے آئین و قانون میں کوئئ ضابطہ بھی موجود ہے؟؟؟ اور یاد رکھئے اگر صرف سیاسی رھنما کا بھائی ہونا ہی کافی ہوتا کسی عہدے کے لئے تو مولانا فضل الرحمن اپنے بھائیو عبید الرحمن اور ضیاء الرحمن کو ڈسٹرکٹ کونسل یا ڈی سی نہ لگواتا بلکہ وہ چاہتا تو ان کو گورنر کے عہدے پر بھی بٹھا سکتا تھا،
عجیب بات ہے آخر انصاف کا کیا پیمانے مقرر کررکھا ہے آنجناب نے
مجھے بتائیں تو سہی کہ مولانا فضل الرحمن کا بھائی سرکاری نوکری کرے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بن جائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟؟
وہ الیکشن لڑے عوام کے سامنے خود کو پیش کرے کہ مجھے خدمت کے لائق سمجھتے ہو تو منتخب کرو عوام منتخب کرے لیکن آپ کے نزدیک اس کا انتخاب بھی حرام ؟؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا مدرسہ میں پڑھائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا الیکشن جیت جاتا تب بھی آپ کے نزدیک حرام ہی ٹہرتا اگر وہ الیکشن ہار گیا تب بھی وہ آپ کے نزدیک حرام ہی رہا؟؟؟؟
ارے مجھے بتاؤ تو سہی کیا کوئی ایسی پوسٹ یا جاب ہے بھی جو مولانا کے بھائیوں اور بیٹوں کے لئے آپ کے نزدیک حلال بھی ہو ؟؟؟
انصاف کا کیا دوغلا پن ہے کہ ایک سیاسی لیڈر
آٹھ سیٹوں بیک وقت الیکشن ہار جائے لیکن وہ پھر بھی ہیرو رہے؟؟
وہ چار چار ماہ اسمبلی کو گالیاں دیتے رہیں لیکن ان کی تنخواہ اور کمائی حلال رہے جو اپنے علاقے کی عوام کے لئے چوبیس گھنٹے زندگی وقف کرچکے ہوں ان کے لئے سب کچھ حرام ؟؟؟
جناب عالی صرف فیس بکی دانشور بن جانے سے آپ ہر کس و ناکس پر بھپتیاں کسنے کا کوئی حق نہیں رکھتے
آگے چلئے آپ نے آخری نکتہ میں جمعیت کے دستور میں ترمیم کی بات کی،
بظاہر آپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ دستوری ترامیم شاید پہلی مرتبہ ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جمہوری سیاسی پارٹی وقت کی نزاکت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے منشور و دستور میں ترمیم کرتی رہتی ہے اور جمعیت علماء اسلام بھی چاہے حضرت درخواستی کی امارت کا دور ہو یا اس سے قبل کا وقت کے تقاضوں کے مطابق دستور میں ترمیم کرتی رہی ہے، بلکہ حضرت قائد محترم کی امارت ہی کے دوران کئی مرتبہ دستور میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں اور ان تبدیلیوں میں حضرت شیرانی صاحب دامت برکاتہم کا باقاعدہ حصہ رہا ہے لہذہ آج کیسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دستوری ترامیم کسی شخصیت یا ذات کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہیں، جبکہ پورے ملک کی مجلس عمومی نے باقاعدہ ان کی منظوری دی ہے،
اگر اب بھی آپ جماعت پر یا قیادت پر اعتراض کرتے ہیں تو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ
"حب شیرانی نہیں بلکہ بغض فضل الرحمن بول رہا ہے"
اور بغض کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے لئے ڈاکٹر سید مبین اختر سے بجلی کے شاٹس لگوانے پڑتے ہیں،
"خان"
Thursday, 25 August 2016
تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد
تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ضلع غربی کراچی کے چیئرمین کے الیکشن میں
تحریک انصاف نے کراچی اتحاد کا حصہ ہونے کےباوجود ایم کیو ایم سے خفیہ
اتحاد کر لیا. یہاں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی مگر تحریک انصاف کے 4
ممبران نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو ووٹ دے کر چیئرمین بنوایا اور بدلے
میں ضلعی وائس چیئرمین شپ حاصل کر لی. اور یہ اتحاد عین اس وقت ہوا ہے جب
الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہا ہے. اس وقت بھی تحریک انصاف
کے رہنما عمران اسماعیل کی وسیم اختر کے ساتھ ملاقات جاری ہے جس کا عمران
اسماعیل نے خود اعتراف کیا ہے اور کہا کہ ملاقات پارٹی رہنما کی حیثیت سے
نہیں کی. مطلب چیچوکی ملیاں کے ماجھو لوہار کی حیثیت سے کی ہوگی۔ ایک اور
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضلع جنوبی میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے امیدوار
کی حمایت کی ہے۔
کوئی نعیم الحق کو تلاش کرے اور بتائے کہ یہ ہوتی ہے منافقت اور پیٹھ میں چھڑا گھونپنا،
"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"
"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"
ڈیر ہ اسماعیل خان میں گھرگھرگیس کی فراہمی"
_________
ڈسٹرکٹ کونسل ڈی آئی خان میں اپوزیشن لیڈر و جے یو آئی ف کے رہنما ء مولانا عبید الرحما ن نے کہا ہے کہ قا ئد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے 87 کروڑ روپے کے قدرتی گیس کی فراہمی پراجیکٹ پر آغا ز آج ظفر آبا د کا لو نی سے ہو گیا ہے اس منصو بہ میں ڈی آئی خان سٹی کے گیس سے محرو م اور مضافات کے 28علاقے شامل ہیں الحمد اللہ ہم نے الیکشن میں کیا ہوا وعد ہ پور ا کر دیا ہے اسی طر ح ڈی آئی خان ایئر پورٹ کی توسیع کیلئے بھی ایک ارب روپے کا فنڈ مختص ہو گیا ہے اس پر بھی جلد کام شروع ہوجائیگا ہم صرف وعدے نہیں عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ ڈیر ہ کی نواحی گنجان آبا دی ظفر آبا د کا لو نی کیلئے قدرتی گیس کی فراہمی کی افتتا حی تقریب سے خطا ب کر رہے تھے اس موقع پر پراجیکٹ کے انچار ج محکمہ سوئی گیس کے آفیسر اعجاز خان گنڈہ پور ، جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری احمد خان کامرانی ، محکمہ سوئی گیس کے ایگزیکٹو آفیسر انجینئر انور خان ، کامران جا ن ، جے یو آئی کے رہنما ء حا جی بشیر خا ن بلو چ ، مولانا قسمت اللہ قاری محمد امین ، لال محمد خرو ٹی ، قطب الدین گنڈہ پور، اور محمد یاسین قریشی بھی موجو دتھے مولانا عبید الرحمان نے کہا کہ پاک چین اقتصا دی راہداری منصو بہ پر کام شروع کر نے کیلئے ڈی آئی خان میں کیمپ لگا دیئے گئے ہیں یہ اربوں روپے کا میگا پراجیکٹ ہے اس کی تعمیر کے بعد ڈیر ہ میں اقتصا دی اور معاشی انقلاب آئیگا جس سے لو گو ں کا معیا ر زندگی بلند ہو گا اور خو شحالی آئیگی انہوں نے کہا کہ ڈیرہ کے تمام پراجیکٹ جمعیت علماء اسلام کی مرون منت ہیں اپوزیشن لیڈر کے پی کے مولانا لطف الرحمان ہر وقت ڈیرہ کے تر قیاتی منصو بہ کیلئے کو شا ں رہتے ہیں ہم کسی پر تنقید نہیں کر تے لیکن ہمارے تر قیاتی کا م ہی ان لو گو ں پر تنقید ہیں جو کام نہیں کر تے ہم پی ٹی آئی کی طر ح ہر وقت رونا دھونا نہیں کر تے اور نہ ہی دھرنوں کی سیا ست پر یقین رکھتے ہیں ہم کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں اور اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کیلئے کوشا ں رہتے ہیں اور یہی ہمارا منشور ہے انہوں نے کہا کہ ظفر آبا د کا لو نی کی عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ ان کا خیا ل رکھا ہمارا اور عوام کا تعلق کوئی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے ختم نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نوا زشریف نے اپنے دورہ کے دوران جتنے بھی تر قیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے ان پر انشاء اللہ ضرور عمل درآمد ہوگا اور ہم اس سے غافل نہیں ہیں قبل ازیں انہوں نے ظفر آبا د کو فراہمی گیس کے منصو بے کی تختی کی نقا ب کشائی کرکے کام کے آغاز کا افتتا ح کیا اور دعا مانگی مولانا عبید الرحمان جب ظفر آبا د کا لو نی پہنچے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری نے انہیں رواتی لنگی پہنائی۔
#سمیع_سواتی
ڈیر ہ اسماعیل خان میں گھرگھرگیس کی فراہمی"
_________
ڈسٹرکٹ کونسل ڈی آئی خان میں اپوزیشن لیڈر و جے یو آئی ف کے رہنما ء مولانا عبید الرحما ن نے کہا ہے کہ قا ئد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے 87 کروڑ روپے کے قدرتی گیس کی فراہمی پراجیکٹ پر آغا ز آج ظفر آبا د کا لو نی سے ہو گیا ہے اس منصو بہ میں ڈی آئی خان سٹی کے گیس سے محرو م اور مضافات کے 28علاقے شامل ہیں الحمد اللہ ہم نے الیکشن میں کیا ہوا وعد ہ پور ا کر دیا ہے اسی طر ح ڈی آئی خان ایئر پورٹ کی توسیع کیلئے بھی ایک ارب روپے کا فنڈ مختص ہو گیا ہے اس پر بھی جلد کام شروع ہوجائیگا ہم صرف وعدے نہیں عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ ڈیر ہ کی نواحی گنجان آبا دی ظفر آبا د کا لو نی کیلئے قدرتی گیس کی فراہمی کی افتتا حی تقریب سے خطا ب کر رہے تھے اس موقع پر پراجیکٹ کے انچار ج محکمہ سوئی گیس کے آفیسر اعجاز خان گنڈہ پور ، جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری احمد خان کامرانی ، محکمہ سوئی گیس کے ایگزیکٹو آفیسر انجینئر انور خان ، کامران جا ن ، جے یو آئی کے رہنما ء حا جی بشیر خا ن بلو چ ، مولانا قسمت اللہ قاری محمد امین ، لال محمد خرو ٹی ، قطب الدین گنڈہ پور، اور محمد یاسین قریشی بھی موجو دتھے مولانا عبید الرحمان نے کہا کہ پاک چین اقتصا دی راہداری منصو بہ پر کام شروع کر نے کیلئے ڈی آئی خان میں کیمپ لگا دیئے گئے ہیں یہ اربوں روپے کا میگا پراجیکٹ ہے اس کی تعمیر کے بعد ڈیر ہ میں اقتصا دی اور معاشی انقلاب آئیگا جس سے لو گو ں کا معیا ر زندگی بلند ہو گا اور خو شحالی آئیگی انہوں نے کہا کہ ڈیرہ کے تمام پراجیکٹ جمعیت علماء اسلام کی مرون منت ہیں اپوزیشن لیڈر کے پی کے مولانا لطف الرحمان ہر وقت ڈیرہ کے تر قیاتی منصو بہ کیلئے کو شا ں رہتے ہیں ہم کسی پر تنقید نہیں کر تے لیکن ہمارے تر قیاتی کا م ہی ان لو گو ں پر تنقید ہیں جو کام نہیں کر تے ہم پی ٹی آئی کی طر ح ہر وقت رونا دھونا نہیں کر تے اور نہ ہی دھرنوں کی سیا ست پر یقین رکھتے ہیں ہم کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں اور اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کیلئے کوشا ں رہتے ہیں اور یہی ہمارا منشور ہے انہوں نے کہا کہ ظفر آبا د کا لو نی کی عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ ان کا خیا ل رکھا ہمارا اور عوام کا تعلق کوئی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے ختم نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نوا زشریف نے اپنے دورہ کے دوران جتنے بھی تر قیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے ان پر انشاء اللہ ضرور عمل درآمد ہوگا اور ہم اس سے غافل نہیں ہیں قبل ازیں انہوں نے ظفر آبا د کو فراہمی گیس کے منصو بے کی تختی کی نقا ب کشائی کرکے کام کے آغاز کا افتتا ح کیا اور دعا مانگی مولانا عبید الرحمان جب ظفر آبا د کا لو نی پہنچے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری نے انہیں رواتی لنگی پہنائی۔
#سمیع_سواتی
جے یو آئی اس میدان میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی جدوجہد کررہی ہے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان اور چین کے سیاسی برادرانہ تعلقات اقتصادی تعلقات کے نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا گھیراو ¿ کیا جارہا ہے، بھارت پاکستان میں مسائل پیدا کررہا ہے، 15سال قبل کہ دیا تھا کہ بھارت نے اپنی دفاعی لائن مغربی سرحدوں پر منتقل کردیا ہے،دینی مدارس کے خلاف سندھ حکومت کے امتیازی قانون کو مسترد کرتے ہیں، نہ ماضی میں ڈکٹیشن قبول کی ہے نہ آئندہ کریں گے۔متحدہ قومی موومنٹ دو آمروں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ امت مسلمہ کا یورپ سے معیشت میں کوئی مقابلہ نہیں مسلمانوں کو اگر دبایا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا معاشی نظام ہے، دہشت گردی مغرب کی ضرورت ہے جس کے لیے اسباب تیار کئے جاتے ہیں اور حالات تیار کئے جاتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نےجےیو آئی سندھ بزنس فورم کے صدر بابر قمر عالم کی جانب سے تاجر برادری کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری،جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، نائب امیرقاری محمد عثمان، صوبائی سرپرست مولاناعبدالکریم عابد،مولانا عبدالقیوم ہالیجوی، ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر، سینئر نائب صدر وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت شیخ خالد تواب،معروف اسٹاک بروکر عقیل کریم ڈھیڈی، چیرمین کراچی انڈسٹریل الائنس میاں زاہد حسین، چیئر مین سندھ صراف جیولرز ایسوسی ایشن ہارون چاند، حاجی مسعود پاریکھ اور دیگر تاجر رہنما بھی موجود تھے. مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دینی مدارس کے حوالے سے سندھ حکومت نے امتیازی قانون بنایا ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں ،دینی مدارس کے خلاف قانون سازی کر کے سندھ حکومت نے اپنے ہی وعدے کی خلاف ورزی کی ہے ،مدارس رجسٹریشن پر جاری مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر کے امیتازی قانون بنایا گیا ہے ۔انہوں نے مزید کہنا تھا کہ دنیا میں تین قسم کی معشتیں ہیں، سرمایہ دارانہ، سوشلزم اور کمیونزم میں توازن نہیں کہیں ریاست سرمائے کی مالک ہے تو کہیں ریاست نے سرمائےکو نجکاری کی شکل میں منتقل کردیا ہے، دنیا میں سرمایہ دار بھی ہے اور محنت کش بھی، کسان بھی ہے اور جاگیردار بھی اسلام نے انہیں آپس میں معاہدوں کا ایک باقاعدہ نظام وضع کیا ہے، سرمایہ دار اور محنت کش حقوق اور بطور انسانی شرف کے برابر ہیں، انہوں نے کہا کہ 70سال گزرنے کے باوجود اسلامی نظام معیشت کو رائج نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے پاس سرمایہ دارانہ وسوشلزم نظام کا اور کیا رہ جاتا ہے، امت مسلمہ کا مغربی معیشت سے کوئی اقتصادی مقابلہ نہیں لیکن مسلمانوں کا ایک ہی گناہ ہے کہ ان کے پاس اپنا معاشی نظام ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے، ترکی ارتقائ سے گزرریا تھا اس کے خلاف سازشیں شروع کردی گئیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان ہمارے گھر کی طرح ہے ہم سب نے مل کر اسے چلانا ہے، جے یو آئی کی اپنی سو سالہ تاریخ ہے اگلے سال ہم جے یو آئی کا صدسالہ کانفرنس منعقد کرنے جارہے ہیں جس میں کارکنان نے 30تا 50لاکھ افراد کی شرکت کا عزم ظاہر کیا ہے، جے یو آئی تاجروں اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے. مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومت تاجروں کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں بلیک میل کرتی ہے اور ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتی ہے، پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بننا ہے جس کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جے یو آئی اس میدان میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی جدوجہد کررہی ہے تاجر برادری جے یو آئی کے ساتھ مل کر ملکی ترقی اور سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرے. ایس ایم منیر، خالد تواب اور میاں زاہد حسین نے عشائیے سے خطاب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمن جس طرح اپنی سیاسی تدبر سے انتشار کو ختم اور جمہوریت کو درپیش خطرات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس کی ملکی سیاست میں مثال نہیں ملتی انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ تاجروں سے ملاقاتیں باقاعدگی سے ہونی چاہیے تاکہ تاجروں کے مسائل کے حل میں ان کی آواز بن سکے. مولانا عبد القیوم یالیجوی نے آخر میں دعا کرائی۔
Sunday, 14 August 2016
’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ
’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ
ازقلم: حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ
’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘
یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:
مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ
’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘
تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:
مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔
اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔
مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:
’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھاا ور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:
’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘
الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر 1975ء کے دورن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔
بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔
ازقلم: حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ
’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘
یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:
مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ
’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘
تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:
مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔
اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔
مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:
’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھاا ور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:
’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘
الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر 1975ء کے دورن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔
بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔
Saturday, 13 August 2016
کیا آپ نظریاتی جمہوری جماعتوں کی جدوجہد کو سمجھتے ہیں؟
سلیم جاوید...
پاکستان میں نظریاتی جمہوری جماعتیں صرف دو ہیں-ملکی انتظام میں دین کا نفوذ چاہنے والی جمیعت علماء اسلام اور دین کو ملکی اتنظام سے الگ رکھنے کی داعی اے این پی-( خوشقسمتی سے دونوں جماعتیں، اپنی ہئت میں سیکولر ہیں-میرے نزدیک سیکولر کا معنی عدم تشدد ہے)-باقی سیاسی جماعتیں، یا تو روٹی، کپڑا اور مکان کے سلوگن پہ سیاست کرتی ہیں یا میگا پراجیکٹس یا روزگار وغیرہ کے نعرے پر، تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا کسی خاص نظریے سے تعلق نہیں ہوتا- یہ عام انسانی ضروریات ہیں جو ہندو و مسلم سب کیلئے ہیں اور اس پہ کسی بھی نظریاتی جماعت کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟-
( معاف کیجئے، 40 جماعتوں کا وہ ٹولہ، جو خانقاہ آبپارہ کے حکم پہ وقتا" فوقتا"اکٹھے ہوکر، دنگل سجایا کرتا ہے، انکو میں نظریاتی جمہوری فہرست میں شمار نہیں کرتا)-
اسلامی نظریاتی جماعت کا مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے نظام کو قومی فلاح کا اصل نظام گردان کر، اسکے نفاذ کی کوشش شروع کرے-
مثلا" پاکستان میں سودی نظام کی مثال لیں- سود، نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ اسی سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا ہے-ضمنا"، اسی سے فحاشی، ڈاکے اور انتہا پسندی پھیلتی ہے-
اب صورتحال یوں ہے کہ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئ ہے- مثلا" آج ایک آدمی حج پہ جانا چاہے تو وہ زمانہ نہیں کہ اپنا بستر اٹھائے اور پیدل مکہ کو چل دے-ویزے، ٹکٹ ، بنک سے ہوکر جانا پڑے گا اور گویا حج کرنے میں بھی سود ی نظام سے تلوث کرنا پڑتا ہے-( یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب میں اسکو کوئ اور خوش کن نام دے دیا جائے)-
عوام بچوں کی طرح کم فہم ہوتے ہیں-انکی اکثریت کو سود کی دنیاوی قباحت کا بھی علم نہیں ہوتا اورنہ انہیں اس نظام کے بدلنے سے کوئ غرض ہوتی ہے-مگر اہل دانش، والدین سماں ہوتے ہیں،وہ بچوں کی چاہت کو نہیں، انکے مستقبل کو سوچ کر، انکی رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
سوچنے سمجھنے والے دینی حلقے، پاکستان میں اس سودی نظام بارے کیا سٹریٹیجی رکھتے ہیں؟ اسکا ایک جائزہ لیتے ہیں-
1-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو سود کے کی قباحت کو واضح کرنے، بڑے بلند پایہ علمی مضامین لکھ کرسمجھتا ہے انہوں نے اپنا حق ادا کردیا-
2-ایک وہ طبقہ ہے کہ جو عوام میں دینی جذبات بیدار کرنے کی محنت میں مگن ہے کہ عوام میں ایمان جاگے گا تو وہ خود ہی سود چھوڑ دیں گے-
3-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو وسمجھتا ہے کہ جبتک حکومتی سطح پر سودی نظام ختم نہیں ہوگا، لوگ پستے رہیں گے-یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار پہ گرفت چاہتا ہے- مگراسمیں پھر تین قسم کی سوچ ہے-
1-ایک وہ لوگ جو بزور بازو، حکومت پہ قبضہ کرکے،سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں-
2-پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جنکو حکومت میں آنے کیلئے متفقہ آئنی طریق کار کے ساتھ ساتھ، پس پردہ سازشیں یا فوج کی مدد سے بھی عار نہیں-انکی نیت چاہے اچھی بھی ہوپر ہمارے نزدیک یہ رویہ غلط ہے-
5-تیسرا طبقہ ہمارا ہم ذہن ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم عوام کی نمائندہ پارلمنٹ کے ذریعے، سود کے خاتمے کا دیرپا حل ڈھونڈھیں گے-مگر اس طبقے کو بھی "تدریج" کا سنت طریقے کا فہم ہونا ضروری ہے کہ انسانی معاشرے،بٹن دبانے سے نہیں بدلا کرتے بلکہ پودوں کی طرح، گوڈی پنیری کرنا پڑتی ہے-رسول پاک نے حجۃ الوداع پہ ہی سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اللہ اور رسول کو پہلے سے اسکی حرمت کا علم تھا-
(مذکورہ بالا ساری بحث میں، صرف "سود" کے مسئلے کو بنیاد بنا یا گیا ہے-علی ھذا القیاس، باقی معاشرتی مسائل پہ بحث ہوگی)-
اب آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ اجتماعی معاشرتی جدوجہد جسے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں، اس کے حامی ہیں بھی یا نہیں؟
اور کیا آپ "روٹی کپڑا مکان" کیلئے جدوجہد پر ہی قناعت کریں گے یا اسکے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگرآپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، مثلا" سود ختم کرنا چاہتے ہیں تو ملکی اختیار تک پہنچنے کیلئے، کون سے طریقہ کار سے ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؟-
آپ بیشک اپنے ہم ذہن گروپ سے تعلق رکھیں، مگر جمیعت علماء کا طریق وہ ہے جو آخر میں بیان کیا گیا اور اسے اپنا کام کرنے دیں-
ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنا آسان ہے بشرطیکہ، اس نظام کو کچھ عرصہ اطمینان سے چلنے دیا جائے-
کتنا عرصہ؟ میرا خیال ہے، اگرغیر جمہوری سازشوں کے وار نہ ہوں تو صرف تین مکمل جمہوری ادوار ہی دینی نظام لاگو کرنے کو کافی ہیں-
کیونکہ اس نظام میں آپکو پارلمنٹ کی 300 سیٹیوں میں سے ایک ہی سیٹ کافی ہے بشرطیکہ آپکا وکیل( ممبرپارلیمان)، مولانا فضل رحمان جیسا آدمی ہو-یعنی، نہ صرف اپنی بات دلیل سے کرسکتا ہو بلکہ اپنی خوئے دلنوازی سے ممبران پارلمنٹ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہو اور ممبران اس پہ اعتماد کرتے ہوں-
کیوں؟
کیونکہ ممبران پارلمنٹ چاہے جاہل ہیں یا مفاد پرست ہیں مگر ہیں تو بہرحال مسلمان ہی-انکو اسلامی قوانین سے صرف چار وجہ سے پرابلم ہوسکتا ہے ورنہ کوئ بھی اسلامی قانون منظور ہوجائے، انکوکوئ ذاتی مسئلہ ہرگزنہیں ہوتا-
ان چار وجوہات پہ ، بشرط فرصت، کسی اگلی نشست میں بات ہوگی ان شاء اللہ-
پاکستان میں نظریاتی جمہوری جماعتیں صرف دو ہیں-ملکی انتظام میں دین کا نفوذ چاہنے والی جمیعت علماء اسلام اور دین کو ملکی اتنظام سے الگ رکھنے کی داعی اے این پی-( خوشقسمتی سے دونوں جماعتیں، اپنی ہئت میں سیکولر ہیں-میرے نزدیک سیکولر کا معنی عدم تشدد ہے)-باقی سیاسی جماعتیں، یا تو روٹی، کپڑا اور مکان کے سلوگن پہ سیاست کرتی ہیں یا میگا پراجیکٹس یا روزگار وغیرہ کے نعرے پر، تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا کسی خاص نظریے سے تعلق نہیں ہوتا- یہ عام انسانی ضروریات ہیں جو ہندو و مسلم سب کیلئے ہیں اور اس پہ کسی بھی نظریاتی جماعت کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟-
( معاف کیجئے، 40 جماعتوں کا وہ ٹولہ، جو خانقاہ آبپارہ کے حکم پہ وقتا" فوقتا"اکٹھے ہوکر، دنگل سجایا کرتا ہے، انکو میں نظریاتی جمہوری فہرست میں شمار نہیں کرتا)-
اسلامی نظریاتی جماعت کا مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے نظام کو قومی فلاح کا اصل نظام گردان کر، اسکے نفاذ کی کوشش شروع کرے-
مثلا" پاکستان میں سودی نظام کی مثال لیں- سود، نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ اسی سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا ہے-ضمنا"، اسی سے فحاشی، ڈاکے اور انتہا پسندی پھیلتی ہے-
اب صورتحال یوں ہے کہ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئ ہے- مثلا" آج ایک آدمی حج پہ جانا چاہے تو وہ زمانہ نہیں کہ اپنا بستر اٹھائے اور پیدل مکہ کو چل دے-ویزے، ٹکٹ ، بنک سے ہوکر جانا پڑے گا اور گویا حج کرنے میں بھی سود ی نظام سے تلوث کرنا پڑتا ہے-( یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب میں اسکو کوئ اور خوش کن نام دے دیا جائے)-
عوام بچوں کی طرح کم فہم ہوتے ہیں-انکی اکثریت کو سود کی دنیاوی قباحت کا بھی علم نہیں ہوتا اورنہ انہیں اس نظام کے بدلنے سے کوئ غرض ہوتی ہے-مگر اہل دانش، والدین سماں ہوتے ہیں،وہ بچوں کی چاہت کو نہیں، انکے مستقبل کو سوچ کر، انکی رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
سوچنے سمجھنے والے دینی حلقے، پاکستان میں اس سودی نظام بارے کیا سٹریٹیجی رکھتے ہیں؟ اسکا ایک جائزہ لیتے ہیں-
1-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو سود کے کی قباحت کو واضح کرنے، بڑے بلند پایہ علمی مضامین لکھ کرسمجھتا ہے انہوں نے اپنا حق ادا کردیا-
2-ایک وہ طبقہ ہے کہ جو عوام میں دینی جذبات بیدار کرنے کی محنت میں مگن ہے کہ عوام میں ایمان جاگے گا تو وہ خود ہی سود چھوڑ دیں گے-
3-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو وسمجھتا ہے کہ جبتک حکومتی سطح پر سودی نظام ختم نہیں ہوگا، لوگ پستے رہیں گے-یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار پہ گرفت چاہتا ہے- مگراسمیں پھر تین قسم کی سوچ ہے-
1-ایک وہ لوگ جو بزور بازو، حکومت پہ قبضہ کرکے،سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں-
2-پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جنکو حکومت میں آنے کیلئے متفقہ آئنی طریق کار کے ساتھ ساتھ، پس پردہ سازشیں یا فوج کی مدد سے بھی عار نہیں-انکی نیت چاہے اچھی بھی ہوپر ہمارے نزدیک یہ رویہ غلط ہے-
5-تیسرا طبقہ ہمارا ہم ذہن ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم عوام کی نمائندہ پارلمنٹ کے ذریعے، سود کے خاتمے کا دیرپا حل ڈھونڈھیں گے-مگر اس طبقے کو بھی "تدریج" کا سنت طریقے کا فہم ہونا ضروری ہے کہ انسانی معاشرے،بٹن دبانے سے نہیں بدلا کرتے بلکہ پودوں کی طرح، گوڈی پنیری کرنا پڑتی ہے-رسول پاک نے حجۃ الوداع پہ ہی سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اللہ اور رسول کو پہلے سے اسکی حرمت کا علم تھا-
(مذکورہ بالا ساری بحث میں، صرف "سود" کے مسئلے کو بنیاد بنا یا گیا ہے-علی ھذا القیاس، باقی معاشرتی مسائل پہ بحث ہوگی)-
اب آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ اجتماعی معاشرتی جدوجہد جسے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں، اس کے حامی ہیں بھی یا نہیں؟
اور کیا آپ "روٹی کپڑا مکان" کیلئے جدوجہد پر ہی قناعت کریں گے یا اسکے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگرآپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، مثلا" سود ختم کرنا چاہتے ہیں تو ملکی اختیار تک پہنچنے کیلئے، کون سے طریقہ کار سے ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؟-
آپ بیشک اپنے ہم ذہن گروپ سے تعلق رکھیں، مگر جمیعت علماء کا طریق وہ ہے جو آخر میں بیان کیا گیا اور اسے اپنا کام کرنے دیں-
ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنا آسان ہے بشرطیکہ، اس نظام کو کچھ عرصہ اطمینان سے چلنے دیا جائے-
کتنا عرصہ؟ میرا خیال ہے، اگرغیر جمہوری سازشوں کے وار نہ ہوں تو صرف تین مکمل جمہوری ادوار ہی دینی نظام لاگو کرنے کو کافی ہیں-
کیونکہ اس نظام میں آپکو پارلمنٹ کی 300 سیٹیوں میں سے ایک ہی سیٹ کافی ہے بشرطیکہ آپکا وکیل( ممبرپارلیمان)، مولانا فضل رحمان جیسا آدمی ہو-یعنی، نہ صرف اپنی بات دلیل سے کرسکتا ہو بلکہ اپنی خوئے دلنوازی سے ممبران پارلمنٹ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہو اور ممبران اس پہ اعتماد کرتے ہوں-
کیوں؟
کیونکہ ممبران پارلمنٹ چاہے جاہل ہیں یا مفاد پرست ہیں مگر ہیں تو بہرحال مسلمان ہی-انکو اسلامی قوانین سے صرف چار وجہ سے پرابلم ہوسکتا ہے ورنہ کوئ بھی اسلامی قانون منظور ہوجائے، انکوکوئ ذاتی مسئلہ ہرگزنہیں ہوتا-
ان چار وجوہات پہ ، بشرط فرصت، کسی اگلی نشست میں بات ہوگی ان شاء اللہ-
سائبر کرائم بل۔ مجرموں میں اچھے برے کی تفریق
\\ایسے کوئی شخص پستول،گن،خنجر وغیرہ استعمال کرکے کوئی جرم کرتا ہے، ایسے ہی #سائبر
کرائم، وہ جرائم کہلاتے ہیں جو کمپیوٹر یا الیکٹرانک ذرائع کو استعمال
کرتے ہوئے کیے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کہ”سائبرکرائم“ ہر ایسی سرگرمی جس میں #کمپیوٹر
یا الیکٹرانک ذرائع کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا
جائے، یا کوئی بھی ایسی سرگرمی سرانجام دی جائے جس کی رو سے اسلام یا
پاکستان کی ساکھ یاکسی معزز شہری کو نقصان پہنچایا جائے۔ یا کوئی بھی
غیرقانونی اور غیرآئینی کام سرانجام دیاجائے۔
ابھی حال ہی میں قومی
اسمبلی سے سائبرکرائم بل منظور ہونے کے بعد باقاعدہ قانونی حیثیت اختیار
کرچکا ہے۔ اس بل کی رو سے لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ،
استحصال، سائبرحملے، سائبردہشتگردی،فحش پیغامات،فحش ویڈیوز، دھمکی آمیز
پیغامات،ای میلز، کسی کے ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ جرم تصور
ہوگا۔چنانچہ اس بل کی رو سے مندرجہ ذیل امورنہ صرف جرم تصور ہوں گے بلکہ ان
پر جسمانی اور مالی سزائیں بھی دی جاسکیں گیں۔ پاکستان میں آئے روز نئے
نئے قوانین بھی بنتے رہتے ہیں اور نئی نئی فورسز بھی بنائی جاتی رہی ہیں،
لیکن اس کے باوجود جرائم میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جس کی وجہ صاف ظاہر
ہے کہ کبھی تو قانون صرف قانون کی حد تک فائلوں میں ہی ہوتا ہے، اور اگر
فائلوں سے باہر نکل کر اس پر عملدرآمد شروع بھی ہوئے جائے تو اچھے اور برے
مجرم کی تفریق آڑے آجاتی ہے، ایک ہی قانون کی غریب اور امیر، سرمایہ داراور
مزدور،جاگیر دار اور مزارع، سیاستدان اور عوام کے لئے الگ الگ تشریح ہوتی
ہے۔ایک جرم اگر امیر کرے تو اسے اور انداز سے ڈیل کیا جاتا ہے جبکہ وہی جرم
اگر غریب کرے تو اسے حقیقی مجرم کے طورپر ڈیل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی
مزدور،مزارع یا عوام میں سے کوئی مجرم ہو تو اس کے ساتھ اور رویہ ہوتا ہے
جبکہ وہی جرم اگر سرمایہ دار،جاگیردار یا سیاستدان اور ان کی اولادیں کرلیں
تو نہ صرف قانون بلکہ پولیس،سیکورٹی اداروں اور متعلقہ حکام کا رویہ ان کے
ساتھ اور ہوتا ہے۔اگر کوئی چھوٹا کاروباری معمولی سا جرم کرلے تو وہ قانون
مجرم ٹھہرتے ہوئے پوری پوری سزا کا بروقت مستحق ہوجاتا ہے جبکہ وہی جرم
بڑے پیمانے پر کوئی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنی کرلے تو نہ صرف اس پر پردہ
ڈالا جاتا ہے بلکہ کمپنی کی ساکھ کو بچانے کے لئے مکمل صرفِ نظر بھی کردیا
جاتا ہے۔
چنانچہ مجرموں میں اس طرح کی تفریق کرنا ہی قانون کو غیر موثر
بنادیتی ہے اور پھر چند سال کے بعد ایک نیا قانون یا فورس بنانے کی ضرورت
محسوس ہوتی ہے۔سائبرکرائم بل کی بھی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائبرکرائم بل
کا اطلاق ٹی وی چینلز پر نہیں ہوگا۔ یعنی ایک عام شہری فیس بک پر اپنے چند
سو فرینڈ تک کوئی غیرقانونی سرگرمی،فحاشی،توہین،بے عزتی کرے گا تو وہ مجرم
ٹھہرے گا جبکہ ٹی وی چینل کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کرے، لوگوں کی
پرائیویسی پر کیمرے لے کر ڈور پڑے،من گھڑت،جھوٹے پروپیگنڈے کرے تو یہ جرم
تصور نہیں ہوگا(شاید اس لئے کہ یہ سرمایہ داروں کا ادارہ ہے اور اس سرمائے
کا ایک بڑا حصہ خزانے میں بھی جمع کراتا ہے)۔ سائبرکرائم بل کی چند شقیں:
۱۔ اگر کوئی شخص #فرقہ
واریت اور مذہبی منافرت پھیلائے تو اسے سات سال قید ہوگی۔(جبکہ یہی جرم
بہت بڑے پیمانے پر ٹی وی چینل کرے، یا تین چار مختلف فرقوں کے مولوی ٹاک
شومیں بٹھا کر انہیں لڑائے اور پوری قوم کودین اسلام سے کنفیوز کرے تو جرم
نہیں)۔
۲۔اگر کوئی شخص غیر اخلاقی تصاویر شائع کرے تو سات سال قید اور
پانچ لاکھ جرمانہ ہوگا(جبکہ ٹی وی چینل تصویر تو کیا غیراخلاقی ویڈیو بھی
چلادے تو یہ جرم نہیں ہوگا)۔
۳۔اگر کوئی شخص #سپمینگ
کرے، یعنی بغیر اجازت کسی کو موبائل یا انٹر نیٹ پر کاروباری یا تجارتی
تشہیر کا میسج کرے،اگرچہ وہ میسج حقائق کے مطابق ہو تو اسے تین ماہ قید
ہوسکتی ہے(جبکہ ٹی وی چینل ایسے اشتہار بھی چلائے جن میں مٹی کو سونا
بناکرپیش کیا گیا ہو، پانی کی بوتل پٹرول سے مہنگی کرکے فروخت کرنے کے لئے
من گھڑت باتیں بنائی گئی ہوں، یا کوئی بھی تجارتی چیز حقائق کے برخلاف
مشتہر کرے تو یہ جرم نہیں)۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ خود موبائل
کمپنیاں صارفین کو دن میں پانچ سے دس کاروباری تشہیر کے میسج روزانہ کرتی
ہیں، بلکہ اب توکمپیوٹر کے ذریعے آٹو کال بھی کرتی ہیں ان کے لئے کوئی روک
ٹوک نہیں، آدمی کسی اہم کام، پڑھائی وغیرہ میں مصروف ہوتا ہے، یا نیند میں
ابھی گیا ہی ہوتا ہے کہ فون پر گھنٹی بجتی ہے اور موبائل کمپنی کے کسی پیکج
کی تشہیر کی کال آرہی ہوتی ہے۔
۴۔اگر کوئی شخص کسی کا کوئی کارٹون، #کامک(Comic)
شیئر کرے گاتو اسے ایک سال قید کی سزا ہوگی۔(لیکن ٹی وی چینلز کے ڈمی
میوزم اور بیہودہ جملوں کے تبادلے اسی طرح چلتے رہیں گے، ان پر اس قانون کا
اطلاق نہیں ہوگا)۔
۵۔اگر کوئی شخص کسی کی تصویراس کی اجازت کے بغیر
شیئر کرے گا تو ایک سال قید کی سزا ہوگی۔(جبکہ ٹی وی کے کیمرہ مین جب
چاہیں، جہاں چاہیں، جیسے چاہیں، جس کو چاہیں، زبردستی اپنی کیمرے کی آنکھ
سے فلمبندکرکے دکھاسکتے ہیں)۔
سائبرکرائم کی روک تھام کے لئے پچھلے
آٹھ دس سے ایک ادارہ( نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائم) پہلے سے ہی کام
کررہا ہے، جہاں آپ اس ادارے کی ویب سائٹ (www.nr3c.gov.pk) آن لائن شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ (سیدعبدالوہاب شیرازی)
مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں پر اوریا مقبول جان کا ایمان افروز کالم . .
مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں پر اوریا مقبول جان کا ایمان افروز کالم . .
سب ساتهی كالم كو ضرور پڑهے اور هوسكےتو شیئر بهی كرے . . .
مولوی اور معاشرہ
شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے.
Tuesday, 9 August 2016
میڈیا، ملٹری اورمولانا فضل رحمان
میڈیا، ملٹری اورمولانا فضل رحمان
سلیم جاوید
بات کچھ خاص نہیں، صرف آپکے ساتھ کچھ دیر"برین سٹارمنگ" کرنا ہے، جس کے لئے میں نے میڈیا، ملٹری اورمولانا کی مثلث پسند کی ہے-اس لئے کہ مولانا ہی سینئرترین سیاستدان ہے)1981ء سے(-میں،ان تینوں کوعنوان بناکر،اختصار کے ساتھ چند سوالات دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں۔اوراس بارے میں ان کے علم سے مستفید ہونا چاہتا ہوں-میڈیا کے بارے میں کچھ معروضات....میڈیا وہ دجالی منتر ہے جوکسی بھی ’کوڈو‘ کو ’عالم چنا‘ بناسکتا ہے۔ اس لئے صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں، اس عفریت کو خفیہ ایجنسیاں ہی کنٹرول کرتی ہیں۔ لہٰذا، پہلے میڈیا کے حوالے سے چند باتیں:1-1988ء میں، پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے جن جرنیلوں نے آئیجے آئی بنائی تھی، ان کا اعترافی بیان ریکارڈ پر ہے کہ اس کے لئے سیاستدانوں میں رقم بانٹی گئی۔ نواز شریف کو 35 لاکھ، جاوید ہاشمی کو 5 لاکھ، قاضی حیسن احمد کو 5 لاکھ وغیرہ،ایک پوری لسٹ عدالت کو دی گئی۔ پیسے نہ لینے والے سیاستدانوں میں مولانا شاہ نورانی، ولی خان اورمولانا فضل رحمان تھے۔ جن لوگوں نے پیسے نہیں لئے، ان کو شاباش ہو، اور جنہوں نے لئے،ان کا بھی کوئی گناہ نہیں )مجھے اگردشمن کو زیر کرنا ہے توکالاچور بھی امداد کرے، میں کیوں انکارکروں؟( لیکن سوال یہ ہے کہ آرمی نے قوم کا یہ پیسہ کس اختیار کے تحت سیاست میں لگایا؟ اس پہ کبھی کوئی اینکر بولے گا؟2-جاوید چوہدری کا کالم ریکارڈ پر ہے، کہ جنرل اسلم بیگ نے مولانا فضل رحمان کوجی ایچ کیو میں بلا کر،اپنے صدارتی امیدوار، غلام اسحق خان کی حمایت کے لئے دھمکایا مگر،ایسے میں کہ جب بےنظیر سمیت سب جھک گئے تھے، مولانا نے اپنے امیدوار، نوابزادہ نصراللہ کودستبردار کرنے سے انکار کردیا-اسلم بیگ بھی زندہ ہے اورجاوید چوہدری بھی، کیا وہ اپنے پروگرام میں اسلم بیگ کو بلا کر پوچھے گا کہ ایک سرونگ آرمی چیف کیوں یہ سیاست کر رہا تھا؟3-مشرف دورکے وفاقی وزیرقانون،جسٹس افضل حیدر نے’تحریک بحالی جمہوریت‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں صفحہ 77 پر، آئی ایس آئی کے مالی امور کے نگران،جنرل نصرت کے حوالے سے لکھا کہ سوائے مولانا فضل رحمان کے، سب سیاسی لیڈر، ایجنسیوں سے رقوم لیتے رہے۔ کیا کوئی اینکرنی صاحبہ، جنرل صاحب کو یا باقی سیاستدانوں کو بلا کر پوچھیں گی کہ یہ رقم کیوں لی/دی گئی اور کس اختیار کے تحت؟4- میڈیا میں’کسی‘نے ایک مہم چلائی تھی کہ مولانا نے ڈیرہ میں5 ہزار کنال، آرمی کی زمین اپنے نام کروا لی-وہ مہم بالکل خاموش ہو گئی- اگرچہ وہ زمین مولانا نے نہیں لی تھی لیکنیہ سچ تھا کہ کچھ غیر متعلقہ لوگوں کو الاٹ ہوئی تھی-ظاہر ہے کہ زمین لینے والوں کا کوئی قصور نہیں)کوئی مفت میں مال دے توکیوں نہ لیں؟( پوچھا تو آرمی سے جانا چاہئے کہ شہدائے کارگل کی زمین، کس قاعدے قانون کے تحت، یا کس کارنامے کے تحت آپ نے غیر متعلقہ لوگوں کو الاٹ کی؟کیا کوئی دلیر اینکر، آرمی پراپرٹی کے کلرک کو ہی بلاکر، کوئی وضاحتی ڈاکومنٹ دکھائے گا؟اب آرمی کے واسطے سے چند باتیں:مولانا اور فوج کا ٹکراو ¿، شروع دن سے ہے-1-جنرل ضیا نے مولانا کو مارشل لا کے خلاف تحریک چلانے پر 1983ء میں "بی کلاس" جیل کی سزا دی تھی-)حالانکہ لیڈروں کو"اے کلاس" ملتی ہے(2-پرویز مشرف نے شروع دور میں دفعہ 6 لگا کر) غداری کی دفعہ جس کی سزا موت ہے(،مولانا کو چھ ماہ قید رکھا-)بعد میں شاید مولانا کی ضرورت پڑ گئی(- اس سارے دور میں جمیعت کے اراکین، پریس کانفرنس اور پارلیمنٹ میں کھلے عام فوج پر تنقید کرتے رہے-مولانا پہ 4 بار قاتلانہحملہ ہوا، لوگ اسے بھی"سزا" ہی سمجھتے ہیں-3-2014ء میں سانحہ پشاور کے بعد، ساری سیاسی قیادت نے متفق ہوکر، اکیسویں ترمیم پر دستخط کئے جن میں فوجی عدالتوں کا قیام کرنا تھا)اس اتفاق کے پیچھے"چھڑی" تھی(- صرف مولانا نے دستخطنہیں کئے اور باجود یقین دہانیوں کے، اب تک نہیں کئے-عجیب بات یہ کہ 2002 سے لیکر 2012 تک، ریاست تقریباً 20 لاکھ روپے ماہانہ، مولانا کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کرتی رہی-سوال یہ ہے کہ فوج،مولاناکو اس قدر سیکیورٹی دینے پر کیوں مجبور ہے؟ہمیں تو وجہ معلوم ہے پر کسی اور کے منہ سے بھی سننا چاہیں گے۔اب مولانا کے واسطے سے چند باتیں:1-بے حساب ڈیزل پرمٹ لینے کی وجہ سے ان کومولانا ڈیزل کالقب ملا ہے- ہر کسی کو معلوم ہے کہ مولانا کے نام سے 1996ءمیں ہزاروں ٹینکر سپلائی کئے گئے-آج 20 سال ہو گئے، کسی ذہین صحافی نے کھوج نہیں لگایا کہ کیا مولانا کا کوئی اپنا پٹرول پمپ ہے یا پاکستان میں کس پمپ کوڈیزل بیچا؟ میرا سوال ہے کہ مولانا خود اس راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا؟ ہوسکتا ہے، اس راز سے پردہ اٹھانے پر، عالمی عدالت میں ’ کسی ‘ پر مقدمہ چلنے لگے مگرحقیقت توظاہر کرنا چاہئے کہ اس الزام کی بنا پہ علماءکی عزت داو پر لگی ہے-2-مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا۔ 3 اگست 2014کو تحریک انصاف نے مولانا قانونی نوٹس بھیج دیا کہ 15 دنوں میں اس بات پرمعافی مانگیں ورنہ 1ارب روپے ہرجانہ ادا کریں-سب کا خیال تھا کہ مولانا، عمران خان کی طرح کہہ دے گا کہ یہ صرف سیاسی بیان تھایا اس لفظ سے میرا یہ مطلب نہیں تھا وغیرہ- مگرمولانا نے تو دھڑلے سے چیلنج قبول کیا اورپریس میں بیاندیا کہ مجھے اسی دن کا انتظار تھا اور اب میں عدالت میں اپنا الزام ثابت کروں گا۔ اس کے بعد،تحریک انصاف چپ ہوگئی جس سے اتنا تو معلوم ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی خاص بات مولانا کے علم ہے تو پبلککیوں نہیں کرتا اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ بات کہتا کیوں ہے؟اوپر میں نے مختصر الفاظ میں جو حقائق بیان کئے ہیں، اسکے لئے صدیوں کی تاریخ کنگھالنے کی ضرورت نہیں-اس تحریر سے میرا مدعا صرف یہ ہے عقل کی جو نعمت خدا نے ہر کسی کو عطا کی ہے،اسے ٹی وی اینکروں کی رکھیل نہ بنائیں، اس لئے کہ’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘-
Wednesday, 27 July 2016
بہی خواہانِ مولانا فضل رحمان کو مبارکباد نمبر دو
بہی خواہانِ مولانا فضل رحمان کو مبارکباد نمبر دو
(بربنائے عدد قومی نمایندگی-نواز شریف،آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، مولانا فضل رحمان)
سلیم جاوید کی ایک شاہکار تحریر
________________________________
مولانا فضل رحمان کے چاہنے والوں کو دوسری مبارکباد یہ دوں گا کہ آپکا لیڈر وہ جیئنون لیڈر ہے، جسکا انتخاب، مجلس عاملہ کے اس کڑے ماحول میں ہوا جس میں بزرگ علماء بھی آپس میں تلخ ہوگئے تھے-اس تلخی سے ہی تو ثابت ہوا کہ جمیعت کے عہدوں کی نامزدگی، نہ ڈرامہ ہوتا ہے، نہ مک مکا اور نہ ہی کسی کے ٹھپہ لگانے سے ہوا کرتی ہے-
دوسری طرف دیگر کوئ لیڈر ایسا نہیں ہے ، جس کے انتخاب سمے،اسکے مقابل کسی دوسرے بندے کا نام تک لیا گیا ہو-
مزید توجہ چاہتا ہوں-سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر، کبھی اپنے باہمی اختلاف کی بنا پر، ہم خیال کارکنوں کو لیکرالگ دھڑے بنا لیا کرتے ہیں-مگر سیاسی تاریخ کی شاید یہ واحد مثال ہے کہ کسی کارکن کی خاطر،کسی جماعت کے دو ایسے بڑے لیڈروں نے دھڑا بنالیا ہو جوخود دنیاوی زندگی سے مستغنی رہتے ہوں-
جماعت کے سیکٹری جنرل کیلئے کسی کارکن کی نامزدگی کرنا تھی- حضرت درخواستی صاحب، جو جمیعت کے امیر تھے، وہ اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق کو بنانا چاہتے تھے اور خواجہ خان محمد صاحب بھی اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا فضل رحمان کو بنانا چاہتے تھے-اس بات پہ جمیعت کے دو دھڑے ہوگئے-پھر یہ اعزاز بھی مولانا نے حصے میں آیا کہ چند برس بعد، پہلے امیر نے بھی واپس انکی سرپرستی کردی-یعنی آپکا لیڈر، آپکی جماعت کے دونوں دھڑوں کے امراء کا متفقہ انتخاب ٹھہرا ہے-
اسکے بالمقابل،مذکورہ بالا لیڈروں کی لیڈری کی حقیقت سب کو معلوم ہے-
پہلے کو جنرل جیلانی نے گود لیا اور جنرل اسلم بیگ کے پیسے نے لیڈر بنایا-
دوسرے کو سادہ کاغذ پہ لکھی، بیوی کی طلسمی وصیت نے پارٹی لیڈر بنادیا-
تیسرے کو، جنرل حمید گل نے ایک صحافی کے مشورے سے لانچ کیا-پھرجنرل پاشا نے دبئ کے صحرا میں بلاکر، لیڈری کا نسخہ پلایا-مگر خفیہ ایجنسیوں کے دو سربراہوں کی مشترکہ کوشش نے اسے لیڈرتو نہیں البتہ سیلیبرٹی ضرور بنا دیا ہے-
چوتھے کو کس نے لیڈر بنایا۔ کیسے بنایا؟ یہ ایک کائناتی معمہ ہے-
اس لئے، جمیعت کے دوستو! ببانگ دہل کہہ سکتے ہو کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے-
کوانٹٹی پہ نہیں، کوالٹی پہ ناز کیجئے
(بربنائے عدد قومی نمایندگی-نواز شریف،آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، مولانا فضل رحمان)
سلیم جاوید کی ایک شاہکار تحریر
________________________________
مولانا فضل رحمان کے چاہنے والوں کو دوسری مبارکباد یہ دوں گا کہ آپکا لیڈر وہ جیئنون لیڈر ہے، جسکا انتخاب، مجلس عاملہ کے اس کڑے ماحول میں ہوا جس میں بزرگ علماء بھی آپس میں تلخ ہوگئے تھے-اس تلخی سے ہی تو ثابت ہوا کہ جمیعت کے عہدوں کی نامزدگی، نہ ڈرامہ ہوتا ہے، نہ مک مکا اور نہ ہی کسی کے ٹھپہ لگانے سے ہوا کرتی ہے-
دوسری طرف دیگر کوئ لیڈر ایسا نہیں ہے ، جس کے انتخاب سمے،اسکے مقابل کسی دوسرے بندے کا نام تک لیا گیا ہو-
مزید توجہ چاہتا ہوں-سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر، کبھی اپنے باہمی اختلاف کی بنا پر، ہم خیال کارکنوں کو لیکرالگ دھڑے بنا لیا کرتے ہیں-مگر سیاسی تاریخ کی شاید یہ واحد مثال ہے کہ کسی کارکن کی خاطر،کسی جماعت کے دو ایسے بڑے لیڈروں نے دھڑا بنالیا ہو جوخود دنیاوی زندگی سے مستغنی رہتے ہوں-
جماعت کے سیکٹری جنرل کیلئے کسی کارکن کی نامزدگی کرنا تھی- حضرت درخواستی صاحب، جو جمیعت کے امیر تھے، وہ اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق کو بنانا چاہتے تھے اور خواجہ خان محمد صاحب بھی اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا فضل رحمان کو بنانا چاہتے تھے-اس بات پہ جمیعت کے دو دھڑے ہوگئے-پھر یہ اعزاز بھی مولانا نے حصے میں آیا کہ چند برس بعد، پہلے امیر نے بھی واپس انکی سرپرستی کردی-یعنی آپکا لیڈر، آپکی جماعت کے دونوں دھڑوں کے امراء کا متفقہ انتخاب ٹھہرا ہے-
اسکے بالمقابل،مذکورہ بالا لیڈروں کی لیڈری کی حقیقت سب کو معلوم ہے-
پہلے کو جنرل جیلانی نے گود لیا اور جنرل اسلم بیگ کے پیسے نے لیڈر بنایا-
دوسرے کو سادہ کاغذ پہ لکھی، بیوی کی طلسمی وصیت نے پارٹی لیڈر بنادیا-
تیسرے کو، جنرل حمید گل نے ایک صحافی کے مشورے سے لانچ کیا-پھرجنرل پاشا نے دبئ کے صحرا میں بلاکر، لیڈری کا نسخہ پلایا-مگر خفیہ ایجنسیوں کے دو سربراہوں کی مشترکہ کوشش نے اسے لیڈرتو نہیں البتہ سیلیبرٹی ضرور بنا دیا ہے-
چوتھے کو کس نے لیڈر بنایا۔ کیسے بنایا؟ یہ ایک کائناتی معمہ ہے-
اس لئے، جمیعت کے دوستو! ببانگ دہل کہہ سکتے ہو کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے-
کوانٹٹی پہ نہیں، کوالٹی پہ ناز کیجئے
Subscribe to:
Posts (Atom)