سلیم جاوید...
پاکستان میں نظریاتی جمہوری جماعتیں صرف دو ہیں-ملکی انتظام میں دین کا نفوذ چاہنے والی جمیعت علماء اسلام اور دین کو ملکی اتنظام سے الگ رکھنے کی داعی اے این پی-( خوشقسمتی سے دونوں جماعتیں، اپنی ہئت میں سیکولر ہیں-میرے نزدیک سیکولر کا معنی عدم تشدد ہے)-باقی سیاسی جماعتیں، یا تو روٹی، کپڑا اور مکان کے سلوگن پہ سیاست کرتی ہیں یا میگا پراجیکٹس یا روزگار وغیرہ کے نعرے پر، تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا کسی خاص نظریے سے تعلق نہیں ہوتا- یہ عام انسانی ضروریات ہیں جو ہندو و مسلم سب کیلئے ہیں اور اس پہ کسی بھی نظریاتی جماعت کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟-
( معاف کیجئے، 40 جماعتوں کا وہ ٹولہ، جو خانقاہ آبپارہ کے حکم پہ وقتا" فوقتا"اکٹھے ہوکر، دنگل سجایا کرتا ہے، انکو میں نظریاتی جمہوری فہرست میں شمار نہیں کرتا)-
اسلامی نظریاتی جماعت کا مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے نظام کو قومی فلاح کا اصل نظام گردان کر، اسکے نفاذ کی کوشش شروع کرے-
مثلا" پاکستان میں سودی نظام کی مثال لیں- سود، نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ اسی سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا ہے-ضمنا"، اسی سے فحاشی، ڈاکے اور انتہا پسندی پھیلتی ہے-
اب صورتحال یوں ہے کہ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئ ہے- مثلا" آج ایک آدمی حج پہ جانا چاہے تو وہ زمانہ نہیں کہ اپنا بستر اٹھائے اور پیدل مکہ کو چل دے-ویزے، ٹکٹ ، بنک سے ہوکر جانا پڑے گا اور گویا حج کرنے میں بھی سود ی نظام سے تلوث کرنا پڑتا ہے-( یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب میں اسکو کوئ اور خوش کن نام دے دیا جائے)-
عوام بچوں کی طرح کم فہم ہوتے ہیں-انکی اکثریت کو سود کی دنیاوی قباحت کا بھی علم نہیں ہوتا اورنہ انہیں اس نظام کے بدلنے سے کوئ غرض ہوتی ہے-مگر اہل دانش، والدین سماں ہوتے ہیں،وہ بچوں کی چاہت کو نہیں، انکے مستقبل کو سوچ کر، انکی رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
سوچنے سمجھنے والے دینی حلقے، پاکستان میں اس سودی نظام بارے کیا سٹریٹیجی رکھتے ہیں؟ اسکا ایک جائزہ لیتے ہیں-
1-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو سود کے کی قباحت کو واضح کرنے، بڑے بلند پایہ علمی مضامین لکھ کرسمجھتا ہے انہوں نے اپنا حق ادا کردیا-
2-ایک وہ طبقہ ہے کہ جو عوام میں دینی جذبات بیدار کرنے کی محنت میں مگن ہے کہ عوام میں ایمان جاگے گا تو وہ خود ہی سود چھوڑ دیں گے-
3-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو وسمجھتا ہے کہ جبتک حکومتی سطح پر سودی نظام ختم نہیں ہوگا، لوگ پستے رہیں گے-یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار پہ گرفت چاہتا ہے- مگراسمیں پھر تین قسم کی سوچ ہے-
1-ایک وہ لوگ جو بزور بازو، حکومت پہ قبضہ کرکے،سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں-
2-پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جنکو حکومت میں آنے کیلئے متفقہ آئنی طریق کار کے ساتھ ساتھ، پس پردہ سازشیں یا فوج کی مدد سے بھی عار نہیں-انکی نیت چاہے اچھی بھی ہوپر ہمارے نزدیک یہ رویہ غلط ہے-
5-تیسرا طبقہ ہمارا ہم ذہن ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم عوام کی نمائندہ پارلمنٹ کے ذریعے، سود کے خاتمے کا دیرپا حل ڈھونڈھیں گے-مگر اس طبقے کو بھی "تدریج" کا سنت طریقے کا فہم ہونا ضروری ہے کہ انسانی معاشرے،بٹن دبانے سے نہیں بدلا کرتے بلکہ پودوں کی طرح، گوڈی پنیری کرنا پڑتی ہے-رسول پاک نے حجۃ الوداع پہ ہی سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اللہ اور رسول کو پہلے سے اسکی حرمت کا علم تھا-
(مذکورہ بالا ساری بحث میں، صرف "سود" کے مسئلے کو بنیاد بنا یا گیا ہے-علی ھذا القیاس، باقی معاشرتی مسائل پہ بحث ہوگی)-
اب آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ اجتماعی معاشرتی جدوجہد جسے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں، اس کے حامی ہیں بھی یا نہیں؟
اور کیا آپ "روٹی کپڑا مکان" کیلئے جدوجہد پر ہی قناعت کریں گے یا اسکے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگرآپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، مثلا" سود ختم کرنا چاہتے ہیں تو ملکی اختیار تک پہنچنے کیلئے، کون سے طریقہ کار سے ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؟-
آپ بیشک اپنے ہم ذہن گروپ سے تعلق رکھیں، مگر جمیعت علماء کا طریق وہ ہے جو آخر میں بیان کیا گیا اور اسے اپنا کام کرنے دیں-
ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنا آسان ہے بشرطیکہ، اس نظام کو کچھ عرصہ اطمینان سے چلنے دیا جائے-
کتنا عرصہ؟ میرا خیال ہے، اگرغیر جمہوری سازشوں کے وار نہ ہوں تو صرف تین مکمل جمہوری ادوار ہی دینی نظام لاگو کرنے کو کافی ہیں-
کیونکہ اس نظام میں آپکو پارلمنٹ کی 300 سیٹیوں میں سے ایک ہی سیٹ کافی ہے بشرطیکہ آپکا وکیل( ممبرپارلیمان)، مولانا فضل رحمان جیسا آدمی ہو-یعنی، نہ صرف اپنی بات دلیل سے کرسکتا ہو بلکہ اپنی خوئے دلنوازی سے ممبران پارلمنٹ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہو اور ممبران اس پہ اعتماد کرتے ہوں-
کیوں؟
کیونکہ ممبران پارلمنٹ چاہے جاہل ہیں یا مفاد پرست ہیں مگر ہیں تو بہرحال مسلمان ہی-انکو اسلامی قوانین سے صرف چار وجہ سے پرابلم ہوسکتا ہے ورنہ کوئ بھی اسلامی قانون منظور ہوجائے، انکوکوئ ذاتی مسئلہ ہرگزنہیں ہوتا-
ان چار وجوہات پہ ، بشرط فرصت، کسی اگلی نشست میں بات ہوگی ان شاء اللہ-
پاکستان میں نظریاتی جمہوری جماعتیں صرف دو ہیں-ملکی انتظام میں دین کا نفوذ چاہنے والی جمیعت علماء اسلام اور دین کو ملکی اتنظام سے الگ رکھنے کی داعی اے این پی-( خوشقسمتی سے دونوں جماعتیں، اپنی ہئت میں سیکولر ہیں-میرے نزدیک سیکولر کا معنی عدم تشدد ہے)-باقی سیاسی جماعتیں، یا تو روٹی، کپڑا اور مکان کے سلوگن پہ سیاست کرتی ہیں یا میگا پراجیکٹس یا روزگار وغیرہ کے نعرے پر، تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا کسی خاص نظریے سے تعلق نہیں ہوتا- یہ عام انسانی ضروریات ہیں جو ہندو و مسلم سب کیلئے ہیں اور اس پہ کسی بھی نظریاتی جماعت کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟-
( معاف کیجئے، 40 جماعتوں کا وہ ٹولہ، جو خانقاہ آبپارہ کے حکم پہ وقتا" فوقتا"اکٹھے ہوکر، دنگل سجایا کرتا ہے، انکو میں نظریاتی جمہوری فہرست میں شمار نہیں کرتا)-
اسلامی نظریاتی جماعت کا مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے نظام کو قومی فلاح کا اصل نظام گردان کر، اسکے نفاذ کی کوشش شروع کرے-
مثلا" پاکستان میں سودی نظام کی مثال لیں- سود، نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ اسی سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا ہے-ضمنا"، اسی سے فحاشی، ڈاکے اور انتہا پسندی پھیلتی ہے-
اب صورتحال یوں ہے کہ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئ ہے- مثلا" آج ایک آدمی حج پہ جانا چاہے تو وہ زمانہ نہیں کہ اپنا بستر اٹھائے اور پیدل مکہ کو چل دے-ویزے، ٹکٹ ، بنک سے ہوکر جانا پڑے گا اور گویا حج کرنے میں بھی سود ی نظام سے تلوث کرنا پڑتا ہے-( یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب میں اسکو کوئ اور خوش کن نام دے دیا جائے)-
عوام بچوں کی طرح کم فہم ہوتے ہیں-انکی اکثریت کو سود کی دنیاوی قباحت کا بھی علم نہیں ہوتا اورنہ انہیں اس نظام کے بدلنے سے کوئ غرض ہوتی ہے-مگر اہل دانش، والدین سماں ہوتے ہیں،وہ بچوں کی چاہت کو نہیں، انکے مستقبل کو سوچ کر، انکی رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
سوچنے سمجھنے والے دینی حلقے، پاکستان میں اس سودی نظام بارے کیا سٹریٹیجی رکھتے ہیں؟ اسکا ایک جائزہ لیتے ہیں-
1-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو سود کے کی قباحت کو واضح کرنے، بڑے بلند پایہ علمی مضامین لکھ کرسمجھتا ہے انہوں نے اپنا حق ادا کردیا-
2-ایک وہ طبقہ ہے کہ جو عوام میں دینی جذبات بیدار کرنے کی محنت میں مگن ہے کہ عوام میں ایمان جاگے گا تو وہ خود ہی سود چھوڑ دیں گے-
3-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو وسمجھتا ہے کہ جبتک حکومتی سطح پر سودی نظام ختم نہیں ہوگا، لوگ پستے رہیں گے-یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار پہ گرفت چاہتا ہے- مگراسمیں پھر تین قسم کی سوچ ہے-
1-ایک وہ لوگ جو بزور بازو، حکومت پہ قبضہ کرکے،سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں-
2-پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جنکو حکومت میں آنے کیلئے متفقہ آئنی طریق کار کے ساتھ ساتھ، پس پردہ سازشیں یا فوج کی مدد سے بھی عار نہیں-انکی نیت چاہے اچھی بھی ہوپر ہمارے نزدیک یہ رویہ غلط ہے-
5-تیسرا طبقہ ہمارا ہم ذہن ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم عوام کی نمائندہ پارلمنٹ کے ذریعے، سود کے خاتمے کا دیرپا حل ڈھونڈھیں گے-مگر اس طبقے کو بھی "تدریج" کا سنت طریقے کا فہم ہونا ضروری ہے کہ انسانی معاشرے،بٹن دبانے سے نہیں بدلا کرتے بلکہ پودوں کی طرح، گوڈی پنیری کرنا پڑتی ہے-رسول پاک نے حجۃ الوداع پہ ہی سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اللہ اور رسول کو پہلے سے اسکی حرمت کا علم تھا-
(مذکورہ بالا ساری بحث میں، صرف "سود" کے مسئلے کو بنیاد بنا یا گیا ہے-علی ھذا القیاس، باقی معاشرتی مسائل پہ بحث ہوگی)-
اب آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ اجتماعی معاشرتی جدوجہد جسے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں، اس کے حامی ہیں بھی یا نہیں؟
اور کیا آپ "روٹی کپڑا مکان" کیلئے جدوجہد پر ہی قناعت کریں گے یا اسکے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگرآپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، مثلا" سود ختم کرنا چاہتے ہیں تو ملکی اختیار تک پہنچنے کیلئے، کون سے طریقہ کار سے ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؟-
آپ بیشک اپنے ہم ذہن گروپ سے تعلق رکھیں، مگر جمیعت علماء کا طریق وہ ہے جو آخر میں بیان کیا گیا اور اسے اپنا کام کرنے دیں-
ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنا آسان ہے بشرطیکہ، اس نظام کو کچھ عرصہ اطمینان سے چلنے دیا جائے-
کتنا عرصہ؟ میرا خیال ہے، اگرغیر جمہوری سازشوں کے وار نہ ہوں تو صرف تین مکمل جمہوری ادوار ہی دینی نظام لاگو کرنے کو کافی ہیں-
کیونکہ اس نظام میں آپکو پارلمنٹ کی 300 سیٹیوں میں سے ایک ہی سیٹ کافی ہے بشرطیکہ آپکا وکیل( ممبرپارلیمان)، مولانا فضل رحمان جیسا آدمی ہو-یعنی، نہ صرف اپنی بات دلیل سے کرسکتا ہو بلکہ اپنی خوئے دلنوازی سے ممبران پارلمنٹ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہو اور ممبران اس پہ اعتماد کرتے ہوں-
کیوں؟
کیونکہ ممبران پارلمنٹ چاہے جاہل ہیں یا مفاد پرست ہیں مگر ہیں تو بہرحال مسلمان ہی-انکو اسلامی قوانین سے صرف چار وجہ سے پرابلم ہوسکتا ہے ورنہ کوئ بھی اسلامی قانون منظور ہوجائے، انکوکوئ ذاتی مسئلہ ہرگزنہیں ہوتا-
ان چار وجوہات پہ ، بشرط فرصت، کسی اگلی نشست میں بات ہوگی ان شاء اللہ-
No comments:
Post a Comment