Saturday, 1 October 2016

بونیر سے جمیعت علماء اسلام کے ہر دلعزیز ایم پی اے مفتی فضل غفور صاحب کا حالات حاضرہ پر زبردست تجزیہ

پاکستان کی امریکہ میں ایک گوٹ پھنسی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیں بلیک میل کیا کرتا تھا اور وہ گوٹ یہ تھی کہ ہم اسلحہ اس سے خریدتے تھے اور وہ جب چاہتا اسے روک لیتا۔ پچھلے پندرہ برس کے دوران ہم تیزی سے یہ انحصار ختم کرچکے اور اب ہم بہت سے اہم ہتھیار یا تو خود بنا رہے ہیں یا پھر چین اور روس سے خرید رہے ہیں۔ سی پیک کی تکمیل خوشحالی لائے گی جبکہ ہماری نئی سٹریٹیجک حکمت عملی میں اب چین، روس، ترکی اور سعودی عرب بہت ہی کلیدی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ سی پیک کی تکمیل تک روس مکمل طور پر پاکستان کے قریب آچکا ہوگا جس کا سب سے اہم اظہار روسی صدر ولادی میر پوٹن کے دورہ پاکستان کی صورت ہوگا۔ اسی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کو توڑنے کے لئے امریکہ نے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کرائی جس کی اطلاع نہ صرف یہ کہ روسی انٹیلی جنس پہلے ہی اردگان کو دے چکی تھی بلکہ طیب اردگان کے طیارے کو استبول آتے ہوئے روس نے ہی فضائی سیکیورٹی مہیا کی تھی ورنہ اردگان کوئی پاگل نہ تھا کہ فضاء میں ترک باغی طیاروں کی موجودگی میں طیارے سے سفر کرتا۔ اسی دوران روس اور سعودی عرب کے مابین بھی بات چیت شروع ہو چکی ہے اور روسی یہ بات کر رہے ہیں کہ ترکی اور سعودی عرب بشار حکومت کو قبول کرلٰیں، ایران کو وہ اور چین مل کر مشرقی وسطیٰ میں جارحیت سے باز رکھ لیں گے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف کھل کر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا۔ پاکستان، چین اور روس مل کر ایران کو امریکہ سے چھیننے کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن ایرانی ملاؤں پر بھروسہ تب تک نہیں کیا جاسکتا جب تک ایران کسی باقاعدہ سمجھوتے میں شامل نہیں ہو جاتا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ پاکستان مکمل طور پر اس کی غلامی سے نکل جائے گا بلکہ شنگھائی تعاون کونسل کی صورت وہ بلاک بھی وجود میں آجائے گا جو ایشیا میں اس کے تمام مفادات داؤ پر لگا دے گا۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس کے تدارک کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن بھارت کی اندرونی صورتحال نریندر مودی کے سبب اب دن بدن بگڑتی جائے گی۔ کپٹلزم کا جن بھارت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کانگریس حکومت نے 400 خفیہ سمجھوتے کرکے چھتیس گڑھ اور جہار کھنڈ جیسی ریاستوں میں جنگل کے جنگل کارپوریشنز کو دیدیئے ہیں جس کے خلاف ماؤ باغی زبردست مزاحمت کر رہے ہیں اور مودی حکومت نے وہاں فوج بڑھا دی ہے۔ مودی کے سبب پہلی بار دلت بڑے خوف کا شکار ہیں اور وہ مسلمانوں سے مل کر برہمن راج کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اسد الدین اویسی حیدرآباد سے نکل کر مہاراشٹر اور اترپردیش تک اپنی آواز ہی پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان ریاستوں کے انتخابات میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ بھارت کا میڈیا انہیں ایسے پہلے رہنماء کے طور پر دیکھنے لگا ہے جس کے جھنڈے تلے ہندوستان بھر کے مسلمان اور دلت مستقبل قریب میں جمع ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف طلبہ تحریکیں بھی حقوق کے لئے انتہائی سرگرم نظر آ رہی ہیں۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان بحران سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کی عسکری تحریکیں فرار کی کیفیت میں ہیں جبکہ کراچی پر پچیس سال سے آسیب کی صورت مسلط ایم کیو ایم آج چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس کے دہشت گردوں کا خوف ختم ہو چکا۔ اس صورتحال میں جنوبی و سینٹرل ایشیا سے پہلی بار ایک بلاک ابھرتا نظر آ رہا ہے جبکہ یورپ جیسا مستحکم براعظم انتشار سے دوچار ہو رہا ہے اور خود امریکہ اپنی عالمی ٹھیکیداری کی بقاء کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ سی پیک کی تکمیل اور علاقائی بلاک کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان امریکہ سے "آزادی" حاصل کر جائے گا اور وہ ہماری معاشرت کو مادر پدر آزاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ جو لبرلز آپ کو آج متحرک نظر آرہے ہیں یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے یا اس بار بھی اسی طرح اپنا قبلہ تبدیل کر لیں گے جس طرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تبدیل کرکے یہ راتوں رات ماسکو کی جگہ واشنگٹن کی طرف سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ اس دوران ہمیں اگر کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ اندرونی سیاسی انتشار ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر داخلی استحکام ہماری شدید ترین ضرورت ھے

لہذا وطن عزیز کا مستقبل روشن ھے انشاءللہ۔ اب ھمیں بیرونی خطرات کی بجائے ملک کی اندرونی سیاسی خلفشاراور عدم استحکام پر سنجیدگی سے غور کرنا ھے جلاؤگھیراؤ کی سیاست ، دھرنوں اور بھڑکوں کے پیچھے بھی کسی بین الاقوامی قوت کی ایماء شامل ھےلیکن پہلے جن اندرونی اداروں کی آشیربادحاصل تھی کم ازکم شائد اب وہ نہ ملے بلکہ لندن اور واشنگٹن سے پاکستانی کی ڈوریاں ھلانے والے سیاسی قائدین بھی اپنے لئے ایک نئے نشیمن کا انتظام کرے جہاں سے لائن ڈس کنکٹ Disconectھونے پر خفت نہ اٹھانا پڑے کیونکہ آئندہ بین الاقوامی سیاست میں بھی ھمارےبہت سارے حریف حلیف بن جائینگے۔ اور امریکہ کے موجودہ حلیفوں کا حریف بننا بھی نوشتہ دیوار ھے چنانچہ پاکستان ، روس ، ترکی، سعودی عرب ۔ خلیجی ریاستیں ، چین وسطی ایشیائی ریاستیں مستقبل میں ایک مضبوط دفاعی اور اقتصادی قوت کے طور پر افق عالم پر چھآجائیں گے اس لئے پروپاکستان افغانی حکومت ھماری ضرورت ھے نیز ایران کو راہ راست پر لانا بھی ناگزیر ھے اس موقع پر یہ بھی ذکر کروں کہ افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت تشکیل دینے اور ایران کو راہ راست پر لانے میں مذھبی قوتوں بالخصوص جمعیت علماءاسلام کا کردار بھی اس عالمی سیاسی تبدیلی کیلئے ناگزیر ھے نیز مثبت پہلو یہ بھی ھے کہ ھماری اسٹبلشمنٹ بھی اپنا قبلہ درست کرکے امریکہ کی چنگل سے آزاد ھوکر ان جماعتوں کو سپورٹ کریگی جو اینٹی امریکہ ھو اور یوں دنیا سے امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری ختم ھو جائیگی اور پاکستان اسلامک ایشین ٹائیگر کے طور رونما ھوگا انشاءللہ ایک خوشحال ، پرامن۔ ترقی یافتہ اور متحد پاکستان کا مستقبل افق پر چھاجائگا انشاء للّٰہ

علامہ اقبال نے فرمایا تھا

مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کے جبیں پر

مرقوم تیرا نام ھے کچھ ھوکے رھے گا

سیاست کے ایک ادنی طالب علم کا تجزیہ ۔فضل غفور


No comments:

Post a Comment