Saturday, 1 October 2016

بونیر سے جمیعت علماء اسلام کے ہر دلعزیز ایم پی اے مفتی فضل غفور صاحب کا حالات حاضرہ پر زبردست تجزیہ

پاکستان کی امریکہ میں ایک گوٹ پھنسی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیں بلیک میل کیا کرتا تھا اور وہ گوٹ یہ تھی کہ ہم اسلحہ اس سے خریدتے تھے اور وہ جب چاہتا اسے روک لیتا۔ پچھلے پندرہ برس کے دوران ہم تیزی سے یہ انحصار ختم کرچکے اور اب ہم بہت سے اہم ہتھیار یا تو خود بنا رہے ہیں یا پھر چین اور روس سے خرید رہے ہیں۔ سی پیک کی تکمیل خوشحالی لائے گی جبکہ ہماری نئی سٹریٹیجک حکمت عملی میں اب چین، روس، ترکی اور سعودی عرب بہت ہی کلیدی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ سی پیک کی تکمیل تک روس مکمل طور پر پاکستان کے قریب آچکا ہوگا جس کا سب سے اہم اظہار روسی صدر ولادی میر پوٹن کے دورہ پاکستان کی صورت ہوگا۔ اسی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کو توڑنے کے لئے امریکہ نے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کرائی جس کی اطلاع نہ صرف یہ کہ روسی انٹیلی جنس پہلے ہی اردگان کو دے چکی تھی بلکہ طیب اردگان کے طیارے کو استبول آتے ہوئے روس نے ہی فضائی سیکیورٹی مہیا کی تھی ورنہ اردگان کوئی پاگل نہ تھا کہ فضاء میں ترک باغی طیاروں کی موجودگی میں طیارے سے سفر کرتا۔ اسی دوران روس اور سعودی عرب کے مابین بھی بات چیت شروع ہو چکی ہے اور روسی یہ بات کر رہے ہیں کہ ترکی اور سعودی عرب بشار حکومت کو قبول کرلٰیں، ایران کو وہ اور چین مل کر مشرقی وسطیٰ میں جارحیت سے باز رکھ لیں گے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف کھل کر سعودی عرب کے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا۔ پاکستان، چین اور روس مل کر ایران کو امریکہ سے چھیننے کی پالیسی پر گامزن ہیں لیکن ایرانی ملاؤں پر بھروسہ تب تک نہیں کیا جاسکتا جب تک ایران کسی باقاعدہ سمجھوتے میں شامل نہیں ہو جاتا۔

امریکہ یہ جانتا ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ پاکستان مکمل طور پر اس کی غلامی سے نکل جائے گا بلکہ شنگھائی تعاون کونسل کی صورت وہ بلاک بھی وجود میں آجائے گا جو ایشیا میں اس کے تمام مفادات داؤ پر لگا دے گا۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس کے تدارک کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن بھارت کی اندرونی صورتحال نریندر مودی کے سبب اب دن بدن بگڑتی جائے گی۔ کپٹلزم کا جن بھارت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کانگریس حکومت نے 400 خفیہ سمجھوتے کرکے چھتیس گڑھ اور جہار کھنڈ جیسی ریاستوں میں جنگل کے جنگل کارپوریشنز کو دیدیئے ہیں جس کے خلاف ماؤ باغی زبردست مزاحمت کر رہے ہیں اور مودی حکومت نے وہاں فوج بڑھا دی ہے۔ مودی کے سبب پہلی بار دلت بڑے خوف کا شکار ہیں اور وہ مسلمانوں سے مل کر برہمن راج کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اسد الدین اویسی حیدرآباد سے نکل کر مہاراشٹر اور اترپردیش تک اپنی آواز ہی پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان ریاستوں کے انتخابات میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ بھارت کا میڈیا انہیں ایسے پہلے رہنماء کے طور پر دیکھنے لگا ہے جس کے جھنڈے تلے ہندوستان بھر کے مسلمان اور دلت مستقبل قریب میں جمع ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف طلبہ تحریکیں بھی حقوق کے لئے انتہائی سرگرم نظر آ رہی ہیں۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان بحران سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ فاٹا اور بلوچستان کی عسکری تحریکیں فرار کی کیفیت میں ہیں جبکہ کراچی پر پچیس سال سے آسیب کی صورت مسلط ایم کیو ایم آج چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس کے دہشت گردوں کا خوف ختم ہو چکا۔ اس صورتحال میں جنوبی و سینٹرل ایشیا سے پہلی بار ایک بلاک ابھرتا نظر آ رہا ہے جبکہ یورپ جیسا مستحکم براعظم انتشار سے دوچار ہو رہا ہے اور خود امریکہ اپنی عالمی ٹھیکیداری کی بقاء کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ سی پیک کی تکمیل اور علاقائی بلاک کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان امریکہ سے "آزادی" حاصل کر جائے گا اور وہ ہماری معاشرت کو مادر پدر آزاد بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ جو لبرلز آپ کو آج متحرک نظر آرہے ہیں یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے یا اس بار بھی اسی طرح اپنا قبلہ تبدیل کر لیں گے جس طرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تبدیل کرکے یہ راتوں رات ماسکو کی جگہ واشنگٹن کی طرف سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ اس دوران ہمیں اگر کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ اندرونی سیاسی انتشار ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر داخلی استحکام ہماری شدید ترین ضرورت ھے

لہذا وطن عزیز کا مستقبل روشن ھے انشاءللہ۔ اب ھمیں بیرونی خطرات کی بجائے ملک کی اندرونی سیاسی خلفشاراور عدم استحکام پر سنجیدگی سے غور کرنا ھے جلاؤگھیراؤ کی سیاست ، دھرنوں اور بھڑکوں کے پیچھے بھی کسی بین الاقوامی قوت کی ایماء شامل ھےلیکن پہلے جن اندرونی اداروں کی آشیربادحاصل تھی کم ازکم شائد اب وہ نہ ملے بلکہ لندن اور واشنگٹن سے پاکستانی کی ڈوریاں ھلانے والے سیاسی قائدین بھی اپنے لئے ایک نئے نشیمن کا انتظام کرے جہاں سے لائن ڈس کنکٹ Disconectھونے پر خفت نہ اٹھانا پڑے کیونکہ آئندہ بین الاقوامی سیاست میں بھی ھمارےبہت سارے حریف حلیف بن جائینگے۔ اور امریکہ کے موجودہ حلیفوں کا حریف بننا بھی نوشتہ دیوار ھے چنانچہ پاکستان ، روس ، ترکی، سعودی عرب ۔ خلیجی ریاستیں ، چین وسطی ایشیائی ریاستیں مستقبل میں ایک مضبوط دفاعی اور اقتصادی قوت کے طور پر افق عالم پر چھآجائیں گے اس لئے پروپاکستان افغانی حکومت ھماری ضرورت ھے نیز ایران کو راہ راست پر لانا بھی ناگزیر ھے اس موقع پر یہ بھی ذکر کروں کہ افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت تشکیل دینے اور ایران کو راہ راست پر لانے میں مذھبی قوتوں بالخصوص جمعیت علماءاسلام کا کردار بھی اس عالمی سیاسی تبدیلی کیلئے ناگزیر ھے نیز مثبت پہلو یہ بھی ھے کہ ھماری اسٹبلشمنٹ بھی اپنا قبلہ درست کرکے امریکہ کی چنگل سے آزاد ھوکر ان جماعتوں کو سپورٹ کریگی جو اینٹی امریکہ ھو اور یوں دنیا سے امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری ختم ھو جائیگی اور پاکستان اسلامک ایشین ٹائیگر کے طور رونما ھوگا انشاءللہ ایک خوشحال ، پرامن۔ ترقی یافتہ اور متحد پاکستان کا مستقبل افق پر چھاجائگا انشاء للّٰہ

علامہ اقبال نے فرمایا تھا

مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کے جبیں پر

مرقوم تیرا نام ھے کچھ ھوکے رھے گا

سیاست کے ایک ادنی طالب علم کا تجزیہ ۔فضل غفور


مران خان، یہودی ایجنڈہ، اور حکیم محمد سعید۔۔۔یوسف خان





امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی اپنی کتاب حجة اللہ البالغہ میں رقمطراز ہیں کہ “وہ لوگ جو دنیا میں رب کے مبعوث انبیاء اکرام علیھم السلام کے بتائے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے انسانی نظام کی اصلاح کی کوششوں میں مصروف عمل رہتے ہیں تو رب العالمین ان زعماء امت کے دلوں میں اچھائی اور برائی کی پہچان کے لئے خاص الہامات کا نزول فرماتے ہیں” انسانی معاشرے کی اصلاح کے لئے کیا چیز اچھی اور کیا چیز بری ہے اس کی پہچان اللہ کے ولی کو بہت جلد ہوجایا کرتی ہے، فارسی کے مقولہ

‎قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید

‎کا مفہوم بھی یہی بنتا ہے کہ

‎ قلندر جو کچھ دیکھتا ہے وہ عام آنکھ نہیں دیکھ سکتی

‎کچھ ایسا ہی منظر تھا جب 2011 کے ایک دن جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن جیو نیوز کے اسٹوڈیو میں تشریف فرما تھے، اور مولانا فضل الرحمن نے یہودیوں کی تیار کردہ سازش کو بھرپور طریقے سے بھانپتے ہوئے ان کے ایجنڈے کو ایکسپوز کرنے کا اعلان کردیا۔ پاکستان کا ایک معروف صحافی پروگرام جرگہ میں دوران انٹرویو حیران و پریشان مولانا فضل الرحمن کی طرف دیکھ رہا تھا اور پورے ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ انٹرویو لینے والا صحافی بهی حیران تھا کہ ایک دینی سیاسی جماعت کا سربراہ کس طرح یہ دعویٰ کررہا ہے، لیکن بات وہی ہوتی ہے جو رب کو منظور ہوتی ہے۔ مولانا نے کہا تھا کہ میرا وجدان کہتا ہے کہ عمران خان یہودی ایجنڈہ لے کر اس ملک میں آیا ہے اور تحریک انصاف مشرقی تہذیب کی پامالی کے لئے یہودیوں اور بین الاقوامی قوتوں کا مہرے کے طور پر پاکستان کی نوجوان نسل پر حملہ آور ہورہی ہے، اور فضل الرحمن کبھی غیر ذمہ داری سے بات نہی کرتا۔

‎پھر کیا تھا کہ پورے ملک میں ملحد اور دین دشمن طبقات و اداروں نے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کے خلاف ایک نا ختم ہونے والا طوفان بدتمیزی برپا کردیا اور عمران خان تحریک انصاف کی چھتری تلے اپنے آقاؤں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف رہا اور مصروف ہے، جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے پاکستان کے ہر فورم پر عمران خان کے یہودیت و بین الاقوامی قوتوں کے ایجنڈے کو موضوع بحث بنا دیا اور اب وہ وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن کی ایک ایک بات کی تائید مولانا کے سیاسی مخالفین کرتے چلے گئے۔ عمران خان کی وزارت عظمی کے لئے تڑپ اور دھاندلی کے آئڈیل نعروں کے شور میں کسی انگلی کے منتظر ہونے کے معاملات واضح ہونا شروع ہو گئے۔

جنگ آزادی میں انگریزوں کی خدمت کرنے والے محمود قریشی کی اولاد سے لے کر سقوط ڈھاکہ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جنرل عمر کے بیٹے اسد عمر تک سب کسی ان دیکھی انگلیوں کے اشاروں سے تحریک انصاف کی گود میں گرتے چلے گئے،،،،، موجودہ سربراہ قادیانی مرزا مسرور سے سرعام ووٹ مانگنے کی بات ہو یا پھر کینیڈا کے سفر میں مرزا مسرور کو ختم نبوت قانون کے ختم کرنے کی یقین دہانیاں، قادیانی ماہر معاشیات کو اپنی حکومت کا وزیر خزانہ بنانے اعلان، تحریک انصاف کے پروگرامز یا ریلیوں میں “یونس الگوہر ” کی قد آدم تصویریں لئے اس کے سپورٹر ہوں یا پھر 120 دن کا وہ دھرنا جس میں قوم کی عزت آبرو کا جنازہ نکال دیا گیا، ‎امریکہ اور مغربی ممالک سے دھرنوں اور ریلیوں کے لئے فنڈز سے لیکر لندن میں گولڈ اسمتھ کے بیٹے کی الیکشن کمپیئن تک ؛‎ ہر ہر موڑ پر مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کو وقت نے مضبوط سے مضبوط تر بنا دیا،

‎ایک طرف مغرب نواز میڈیا اور تحریک انصاف اینڈ کمپنی مولانا فضل الرحمن کی کردار کشی میں مسلسل مصروف تھیں تو دوسری جانب کچھ نادیدہ قوتیں مکمل زور لگا رہی تھیں کہ کسی طریقہ سے مولانا فضل الرحمن کو اس مؤقف سے پیچھے ہٹا دیا جائے۔  اپنے تمام تو حربوں میں ناکامی کے بعد پھر پاکستان مخالف تحریک طالبان کے ذریعے مولانا کو باقاعدہ راستے سے ہٹانے کی گھناؤنی کوششیں کی گئیں۔ کوئٹہ صادق شہید گراؤنڈ میں پیش آنے والا واقعہ کون بھول سکتا ہے؟ 2013 کے الیکشن سے قبل اور بعد ان نادیدہ قوتوں نے وہ ماحول بنا دیا کہ ایک پلے بوائے کو آزادی سے الیکشن کمپئن چلانے اور بعد الیکشن کے ہر قسم کے وسائل مہیا کردئے، تو دوسری جانب عمران خان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے اسلام کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے ٹهیکیداروں کو کمال ہوشیاری سے استعمال کیا گیا۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ مغربی تہذیب کا نمائندہ تو اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ہر جگہ محفوظ رہا،،، لیکن لاکھوں علماء و طلباء کے نمائندے اور ملک پاکستان کے ایک محب وطن سیاسی شخصیت کو بم حملوں کا شکار بنایا جاتا رہا، لیکن اس کے باجود بھی مولانا فضل الرحمن کے مؤقف میں کوئی لچک نہ آئی۔

مولانا فضل الرحمن کے اپنے مؤقف پر اثبات اور استقامت نے آنے والے وقت میں کے پی میں تمام منصوبوں اور سازشوں کو کھول کرکے رکھ دیا، کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے حامل صوبہ کو مکمل طور پر غیر ملکی این جی اوز کے حوالے کردیا گیا۔ پورے صوبے کے تعلیمی اداروں کو غیر ملکی برطانوی این جی اوز کے حوالے کرکےمعصوم مسلمان بچوں کے ذہنوں میں مغربی تہذیب کے بیج بونے کے کام پر لگا دیا ، غیرملکی این جی اوز کے فنڈز اور صوبے میں عمل دخل نے کے پی کے کی عوام کی آنکھیں کھول دیں۔

‎لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بھی کسی کو اس سازش کا کبهی ادراک ہوا تھا ؟،، کہ پاکستان کو یہودیت کی کالونی بنانے کے لئے کس شخصیت کا انتخاب ہوچکا ہے ؟ ‎جی ہاں 2013 کے الیکشن سے 17 سال قبل پاکستان کے نامور و مستند حکیم و طبیب اور پاکستان کی تاریخ میں ایک باعتماد نام سابق گورنر سندھ “حکیم محمد سعید ” 1996 میں اپنی تصنیف میں اس شخصیت کا ذکر کر گئے ہیں، (اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ ان کے درجات بلند فرمائے) ‎حکیم محمد سعید جو اپنی طب و حکمت اور تقویٰ کی وجہ سے پاکستان کے ہر طبقہ فکر میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں بلند کردار اور وسیع نظر کے حامل حکیم محمد سعید نے 19 جولائی 1993 سے 01 جنوری 1994 تک صوبہ سندھ میں گورنر کے فرائض سرانجام دئیے ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے

‎حکیم محمد سعید رحمہ اللہ نے اپنی شہادت سے دو سال قبل 1996 میں اپنی کتاب “جاپان کی کہانی” شائع کی اور اس کتاب میں سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید نے “عمران خان کی یہودیت نوازی کا پردہ مکمل طور پر چاک کردیا تھا۔ حکیم محمد سعید اس یہودی سازش کو بےنقاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں

‎”پاکستان کے ایک عمران خان کا انتخاب ہوا ہے، یہودی ٹیلی ویژن اور پریس نے عمران خان کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا ہے، سی این این ، بی بی سی سب عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ برطانیہ جس نے فلسطین تقسیم کرکے یہودی حکومت قائم کرائی وہ ایک طرف عمران خان کو آگے بڑھا رہا ہے اور دوسری طرف آغا خان کو ہوائیں دے رہا ہے۔ برطانیہ الطاف حسین کا مربّی بنا ہوا ہے اور اب نکیل یہودیوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے اور کانوں کان خبر نہیں ہورہی۔ اب عمران خان کی شادی یہودیوں میں کرا دی ہے، پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو کروڑوں روپے دئیے جا رہے ہیں تاکہ عمران خان کو خاص انسان بنا دیا جائے۔ وزارت عظمی پاکستان کے لئے عمران خان کو ابھارا جا رہا ہے محترمہ بے نظیر بھٹو پہلے تو عمران خان پر برسی تھیں، مگر اب انہوں نے عمران خان کے خسر کو دعوت پر مدعو کیا ہے۔ اسی عنوان پر امریکی نائب صدر نے عمران خان کو لنچ پر بلالیا، ‎نوجوانو کیا اب پاکستان کی آئندہ حکومت یہودی الاصل ہوگی ؟”

شاید حکیم سعید کا یہ مؤقف حق کا وہ اظہار تھا جس کے بعد انہیں نہایت بے دردی کے ساتھ کراچی میں شہید کردیا گیا، جس پر پورا پاکستان اور خصوصاً کراچی کئی دن تک آنسو بہاتا رہا۔ ‎یہ سوال بھی ہنوز اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا کہیں حکیم محمد سعید کو اسی سچ بولنے کی سزا تو نہیں دی گئی ؟ ‎اور پھر آپ اندازہ لگائیں کہ کس قدر واضح انداز میں وقت کے ایک دانشور اور درد دل رکھنے والی شخصیت نے 1996 میں جس وقت عمران خان ایک پاپولر سیاستدان نہیں تھا، لیکن مستقبل میں عمران خان کی یہودیت نوازی اور بین الاقوامی قوتوں کی جانب سے عمران کی مبینہ تربیت کا پردہ چاک کردیا تھا، لیکن افسوس اس وقت کسی نے حکیم سعید کی بات پر کان نہیں دھرے بالآخر جب اس عالمی سازش کے کرتا دھرتاؤں نے باقاعدہ عملی پروگرام شروع کیا اور ایک منظم منصوبے کے تحت پاکستان میں اپنے نمائندے کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے منصوبے پر عمل در آمد شروع کیا تو اس گہری سازش کو بے نقاب کرنے اسلامی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے گھناؤنے پلان، یہودی فنڈ زدہ تنظیم ، قادیانیوں اور گوہریوں کے حمایت یافتہ اس فتنہ کا راستہ روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمن تن تنہا میدان عمل میں کود پڑا، اور ہر ہر فورم پر اس سازش کو شکست سے دوچار کیا، پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا پاکستان کے سرکاری اداروں پر حملہ 120 دن کا دھرنا اور بار بار انگلی کے اٹھ جانے کا ذکر یہ تمام اس “گرینڈ پلان ” کا حصہ تھا جسے عمران خان اور اس کے اسپانسرز نے ” لندن ” میں بیٹھ کر تیار کیا تھا۔  یہودی قوتیں فیصلہ کرچکی تھیں کہ 2013 میں پاکستان ان کے نمائندے کے سپرد کردینا ہے، لیکن مولانا فضل الرحمن کے بروقت میدان عمل میں اتر جانے سے عشروں پر محیط سازش دم توڑ گئی لیکن جاتے جاتے ایک صوبہ کو ضرور نشانہ بنا گئی اور آج جب کہ صوبہ کے پی کے مکمل طور پر غیرملکی این جی اوز کے نرغے میں گھر چکا ہے تو وہاں کی عوام کی ایک بار پھر امید نگاہ مولانا فضل الرحمن بن چکا ہے، اور ان شاء اللہ آئندہ الیکشن میں کے پی کے کی عوام تحریک انصاف کو بھی تحریک مساوات کی طرح ایک قصہ پارینہ بنا دے گی، لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لئے لکھ دیا جائے گا کہ مدرسہ کی چٹائی سے اٹھنے والے ایک مولوی نے تن تنہا اس ملک میں پورے یہودی ایجنڈے کو صرف شکست ہی نہیں دی، بلکہ ہمیشہ کے لئے دفن بھی کردیا تھا۔

‎اور آج ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں 30 ستمبر کو رائیونڈ کی طرف مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ اوپر بیان کردہ تمام حقائق اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے فاضلانہ تجزئے کی روشنی میں آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ عمران خان وزارت عظمی کی روز بروز ابھرتی خواہش میں اس ملک کی تہذیب و روایات کو کس طرح سے پامالی کی طرف لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم دینی و مذہبی سیاست کے علمبرداروں کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ ایک طرف اپنی مشرقی روایات کا تحفظ ہوسکے اور مغربی تہذیب کے حامیوں کو ٹھکرایا جا سکے،اور دوسری طرف ملک کے جذباتیت سے مغلوب نوجوانوں کو شدت پسند اسلامی سوچ سے بھی بچایا جا سکے، آخر میں صرف اتنا گزارش ہے کہ پی ٹی آئی سے منسلک وہ تمام جذباتی نوجوان ایک بار پھر ضرور سوچیں کہ کہیں وہ نئے پاکستان کے خوشنما نعرے میں غیروں کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ؟ خاص طور پر حکیم محمد سعید کی بیان کردہ حقیقت پر ہر شخص کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اس لئے کہ حکیم محمد سعید نے بھی آخر میں یہی فرمایا تھا

‎میرے نونہالو! دنیا میرے آگے ہے ! میں اب دنیا کے ہر انسان کی اچھائی کے لئے سوچنے کے قابل ہوں اور دنیا کے ہر انسان کی خدمت کے لئے وافر جذبات رکھتا ہوں۔

Thursday, 29 September 2016

پاکستانی سپہ سالار نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ۔۔۔!

پاکستانی سپہ سالار نے اپنا دعویٰ سچ کر دکھایا ۔۔۔! بھارت آیا تو تھا بڑی شان سے مگر پاکستان نے کیا حال کیا؟ تفصیلات منظر عام پر

مظفرآباد(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی فوج نے جمعرات کےروزلائن آف کنڑول پربھارتی فوج کامقابلہ کرتے ہوئے 8بھارتی فوجیوں کوہلاک جبکہ 1فوجی کوزندہ پکڑلیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستانی فوج نے جمعرات کےروزلائن آف کنڑول پربھارتی فوج کامقابلہ کرتے ہوئے 8بھارتی فوجیوں کوہلاک جبکہ 1فوجی کوزندہ پکڑلیا۔فوجی ذرائع کے مطابق پاک فوج کے ہاتھوں زندہ پکڑاجانے والا فوجی شدید زخمی تھااوروہ اپنے دیگرساتھیوں کے ہمراہ بھاگ نہیں سکااورپاک فوج نے اس کوپکڑلیا۔اس بات کاانکشاف ایک نجی ٹی وی کے معروف اینکرپرسن حامدمیرنے انکشاف کیاکہ پاکستانی فوج نے دوسیکٹروں میں کل 14بھارتی فوجیوں کوہلاک کیاجبکہ اس نجی ٹی وی کے شومیں شریک پاک فوج کے سابق اعلی فوجی افسرمیجرجنرل (ر) اعجازاعوا ن نے تصدیق کردی ۔پاک فوج کے ہاتھوں زندہ پکڑے جانے والے بھارتی فوجی کانام چاندنوبابولال چوہان ہے اوراس کوپاک فوج نے ایک نامعلوم مقام پرمنتقل کردیاہے ۔بھارتی فوج کے اس پکڑے جانے والے فوجی کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں کہ اس کی عمر 22سال ،جبکہ اس کامذہب ہندواوروہ بھارتی ریاست مہاشڑاکارہائشی ہے ۔جبکہ لائن آف کنڑول جوکہ پاکستانی حدود میں ہے اس میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی لاشیں بھارتی فوج اپنے ساتھ نہیں لے جاسکی بلکہ ادھرہی چھوڑکربھاگ گئی ۔

 

قبائلی عوام کی حالت کشمیریوں سے بھی بدتر ہے،مولانا فضل الرحمٰن

 
سلام آباد ۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ قبائلی عوام کی حالت کشمیری عوام سے بھی بد تر ہے، قبائلی عوام کو افغانستان کا باشندہ قرار دیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی کر کے بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے اسی مقصد کے لیے مودی حکومت 70 سال کے بعد پاکستان کے بارے میں نئے رویوں پر مبنی پالیسی بنا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا میں نے آج سے پندرہ سال پہلے ہی کہا تھا کہ ہندوستان اپنا دفاعی اثر ورسوخ افغانستان تک بڑھا رہا ہے،آج وہی ہو رہا ہے اور بھارت ہمیں گھیر رہا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ بتایا جاتا ہے کہ 10 لاکھ آئی ڈیپز ہیں، اڑھائی لاکھ افغانستان چلے گئے ہیں، چارلاکھ ابھی تک فاٹا سے نکلے ہی نہیں، یہ کون سے اعداد وشمار ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن  نے کہا کہ ہمیں پہلے ہی سرحدی مشکلات کا سامنا ہے قبائلیوں اور دیگر قومیتوں کے لیے مشکلات نہ بڑھائی جائیں قبائلی عوام کو آج بھی طالبان کی پرچیاں مل رہی ہیں اور اگر طالبان کی پرچیاں مل رہی ہیں تو بھر طالبان کے خاتمے کا دعوی کیسے کیا جا سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ صوفی محمد آئین کو نہیں مانتا تو جیل میں ہے تو اس سے معاہدہ کس نے کیا تھا؟ صوفی محمد کے ساتھ ماورائے ایک آئینی معاہدہ کرنے والے تو سب آئین جانتے تھے، پھر انہوں نے کیسے دست خط کردیے یہ جانتے بوجھتے کہ یہ شخص آئین کو نہیں مانتا سچ یہ ہے کہ ہم سے بھی بہ حثیت مجموعی غلطیاں ہوئیں ہیں۔

Sunday, 11 September 2016

حب شیرانی نہیں بلکہ بغض فضل الرحمن کیا جارہا ہے "تحریر:یوسف خان"

محترم دوست جناب انعام رانا صاحب نے جب سے مکالمہ کے نام سے اپنی ویب سائٹ بنائی ہے اور مکالمہ کی دعوت عام دی ہے کچھ احباب کو گویا موقع ہاتھ آگیا کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی خواہشات کا نشانہ بنائیں اور حد تو یہاں تک کردی گئی کہ اپنی ذہنی آسودگی کے لئے جماعت ہی کی ایک سینئر رھنماء اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی کو بطور کاندھا استعمال کرکے فائرنگ کی جارہی ہے، کل مکالمہ ویب سائٹ پر ایک تحریر نظر سے گزری مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی کے اختلاف کے عنوان سے، ویسے تو اس طرح کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے جواب کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ صاحب تحریر نے تحریر کی ابتداء میں ہی ایک پیمانہ وضع کردیا تو سو اس لئے اب اس تحریر کا ہم اسی پیمانے میں جواب دے رہے ہیں امید ہے کہ بہت ساروں کی تشفی ہوگی اور اگر پھر بھی تشفی نہ تو ایسے لوگوں کے لئے ہم "کراچی نفسیاتی ھسپتال" کا مشورہ دیتے ہیں اور ڈاکٹر سید مبین اختر ہی ان کا اچھا علاج کرسکتے ہیں"
سو جناب آگے چلتے ہیں
کہا یہ جا رہا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی " عمر اور تجربہ" میں" قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن" سے بڑے ہیں اس لئے وہ قیادت کے زیادہ حقدار ہیں،
جناب عالی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے ایک پیمانہ مقرر کردیا اس لئے کہ جب اختلاف رائے میں پیمانہ مقرر ہوجائے تو بات کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوجاتا ہے، تو آگے بڑھتے ہیں آنجناب نے پیمانہ مقرر کیا ہے "عمر اور تجربہ"
تو جناب من
آپ دنیا کی مختلف اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو نظر آئے گا کہ قیادت کا انتخاب عمر میں بڑھوتی کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ تجربہ معاملہ فہمی، دور اندیشی اور قائدانہ صلاحتیوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، آپ کے طے کردہ پیمانہ کی روشنی ہم یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی عمر میں اور تجربہ میں بڑے ہیں
لیکن ٹہرئیے اگلی بات سنئے(پیمانہ آپ کا ہے نتیجہ ہم بتاتے ہیں )
پھر تسلیم کرلیجئےکہ مولانا محمد خان شیرانی اپنے تجربے اور عمر کی بنیاد پر کبھی بھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے تجربہ ہی کی بنیاد پر "نوجوان مولانا فضل الرحمن " کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کرلی تھی جب جمعیت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی تھی،
اگر تب مولانا محمد خان شیرانی کا انتخاب مولانا فضل الرحمن تھا تو آج آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ مولانا محمد خان شیرانی کے تجربہ و عمر کو بنیاد بنا کر آپ جمعیت کی قیادت پر رکیک حملے کریں،
اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ مولانا محمد خان شیرانی 1985 سے لے کر آج تک اپنے اسی تجربہ کی بنیاد پر ثابت کرتے آئے ہیں کہ ان کا تجربہ کہتا ہے کہ قیادت کا حقدار آج بھی مولانا فضل الرحمن ہے،
جناب عالی آپ نے بات کی کہ مولانا محمد خان شیرانی کا ہمیشہ سے مولانا فضل الرحمن سے اختلاف رہا ہے،
تو پھر تو آپ جناب کو جمعیت کو داد دینی چاہیے تھی کہ جمعیت پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے کہ جس میں اختلاف کی اجازت بھی ہے اور احترام بھی --- کہ اس جماعت کے رھنماء بلا جھجھک اپنے مؤقف پر اظہار خیال کرتے ہیں یہ جمعیت علماء اسلام ہی ہے کہ مجلس عمومی کے اجلاس میں مولانا محمد خان شیرانی اپنے تحفظات بیان کرتے ہیں اور امیر جماعت ان کے تحفظات کو مکمل طور پر سنتے ہیں
اور ہاں
یہ نہیں ہوتا کہ عمر اور تجربے میں اپنے سے کئی گنا بڑے سیاسی لیڈر (جاوید ہاشمی) کو کہنی مار کر جماعت سے نکال دیا جاتا ہے،
آپ نے بات کی کہ
مولانا عطاء الرحمن صوبائی الیکشن ہارنے کے باوجود بھی سینیٹ کے لئے منتخب ہوجاتے ہیں
میرے پیارے بھائی
سب سے پہلے آپ کی دیانت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اور آپ کے پوائنٹ پر آنے سے قبل چند باتیں تحدیث نعمت کے طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں کم از کم آپ نے یہ اعتراض کرکے جانے یا انجانے میں جمعیت کے "جمہوری جماعت ہونے " کا تو اعتراف کرلیا،
اور یہ بھی اعتراف کرلیا کہ جمعیت میں جمہوریت اس قدر مضبوط ہے کہ جمعیت کے الیکشن میں کوئی سفارش یا تعلق نہیں دیکھا جاتا یہاں مولانا فضل الرحمن کا بھائی الیکشن ہار بھی سکتا ہے اور مولانا فضل الرحمن پانچ سے زائد بار بلا مقابلہ امیر بھی منتخب ہو سکتا ہے،
اب آپ کہیں گے یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے تو جناب من اگر مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ بنا کر جماعت پر قبضہ کئے بیٹھا ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کا بھائی کبھی کے پی سے جماعتی الیکشن نہ ہارتا،
اگر جمعیت میں صوبائی سطح پر کوئی دھڑا بندی کا ماحول ہوتا تو پینتیس سال سے زائد صوبائی امارت پر فائز رہنے والے مولانا محمد خان شیرانی کبھی بھی صوبائی امارت کا انتخاب نہ ہارتے
میں شکرگزار ہوں آپ کا کہ آپ نے جمعیت کے جمہوری جماعت ہونے پر مہر ثبت کردی،
باقی جہاں تک بات ہے مولانا عطاء الرحمن کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا تو آپ کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن ٹکٹوں کی تقسیم کے منصب پر نہیں بلکہ امت مسلمہ کی ترجمانی کے منصب پر فائز ہیں ٹکٹ کے دینے یا نہ دینے کا اختیار کے پی کے کی صوبائی جماعت کے پاس تھا اور اسی صوبائی جماعت نے ہی انہیں ٹکٹ جاری کیا تھا،
آگے بڑہئے
بات کی گئی کہ مولانا لطف الرحمن کے پی اسمبلی کے ممبر ہونے کی؟؟
تو میرے بھائی یہ سوال آپ کو جماعت سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ PK-66 کی عوام سے کرنا چاہئیے کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے بھائی کو کیوں اسمبلی میں بھیجا اور اگر آپ کو عوام سے اپنے ممبر اسمبلی کے انتخاب کے اختیار پر سوال اٹھانے کا حق نہیں ہے تو براہ کرم اپنا جواب بھی اسی جگہ ڈال دیجئے جہاں سے یہ سوال آیا تھا۔
آگے چلتے ہیں
آپ نے مولانا کی دوسرے بھائی ضیاء الرحمن کے بارے اعتراض کیا تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ضیاء الرحمن نے اپنا کیرئر پی ٹی سی ایل سے ملازمت میں شروع کیا تھا اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ترقی کے زینے چڑھے ہیں ہم اس سے قبل بھی کئی بار متعدد فورمز پر یہ بات رکھ چکے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ ضیاء الرحمن کو خلاف ضابطہ و قانون ترقی دی گئی ہے اس کے لئے ہائیکورٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں آئیے اپنے آپ کو سچا ثابت کیجئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور اگر آج ضیاء الرحمن ایک سرکاری نوکری کررہا ہے تو جان لیجئے یہ بھی مولانا فضل الرحمن کی پاک صاف سیاست پر واضح دلیل ہے آخر کونسا پاکستان کا ایسا لیڈر ہے جو ملک کا معروف سیاستدان ہو پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ مؤثر پارٹی کا قائد ہو اور اس کا بھائی ایک معمولی سی سرکاری نوکری پر ملک و قوم کی خدمت کررہا ہو
اور پھر آپ نے بات کی مولانا عبید الرحمن کے ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر ہونے کی
تو جناب عالی کیا ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بننے کے لئے کسی سیاسی رھنماء کا رشتہ دار ہونے کی ضرورت ہے یا اس کے لئے آئین و قانون میں کوئئ ضابطہ بھی موجود ہے؟؟؟ اور یاد رکھئے اگر صرف سیاسی رھنما کا بھائی ہونا ہی کافی ہوتا کسی عہدے کے لئے تو مولانا فضل الرحمن اپنے بھائیو عبید الرحمن اور ضیاء الرحمن کو ڈسٹرکٹ کونسل یا ڈی سی نہ لگواتا بلکہ وہ چاہتا تو ان کو گورنر کے عہدے پر بھی بٹھا سکتا تھا،
عجیب بات ہے آخر انصاف کا کیا پیمانے مقرر کررکھا ہے آنجناب نے
مجھے بتائیں تو سہی کہ مولانا فضل الرحمن کا بھائی سرکاری نوکری کرے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا ممبر بن جائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟؟
وہ الیکشن لڑے عوام کے سامنے خود کو پیش کرے کہ مجھے خدمت کے لائق سمجھتے ہو تو منتخب کرو عوام منتخب کرے لیکن آپ کے نزدیک اس کا انتخاب بھی حرام ؟؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا مدرسہ میں پڑھائے تو آپ کے نزدیک حرام ؟؟؟؟
مولانا فضل الرحمن کا بیٹا الیکشن جیت جاتا تب بھی آپ کے نزدیک حرام ہی ٹہرتا اگر وہ الیکشن ہار گیا تب بھی وہ آپ کے نزدیک حرام ہی رہا؟؟؟؟
ارے مجھے بتاؤ تو سہی کیا کوئی ایسی پوسٹ یا جاب ہے بھی جو مولانا کے بھائیوں اور بیٹوں کے لئے آپ کے نزدیک حلال بھی ہو ؟؟؟
انصاف کا کیا دوغلا پن ہے کہ ایک سیاسی لیڈر
آٹھ سیٹوں بیک وقت الیکشن ہار جائے لیکن وہ پھر بھی ہیرو رہے؟؟
وہ چار چار ماہ اسمبلی کو گالیاں دیتے رہیں لیکن ان کی تنخواہ اور کمائی حلال رہے جو اپنے علاقے کی عوام کے لئے چوبیس گھنٹے زندگی وقف کرچکے ہوں ان کے لئے سب کچھ حرام ؟؟؟
جناب عالی صرف فیس بکی دانشور بن جانے سے آپ ہر کس و ناکس پر بھپتیاں کسنے کا کوئی حق نہیں رکھتے
آگے چلئے آپ نے آخری نکتہ میں جمعیت کے دستور میں ترمیم کی بات کی،
بظاہر آپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ دستوری ترامیم شاید پہلی مرتبہ ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جمہوری سیاسی پارٹی وقت کی نزاکت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے منشور و دستور میں ترمیم کرتی رہتی ہے اور جمعیت علماء اسلام بھی چاہے حضرت درخواستی کی امارت کا دور ہو یا اس سے قبل کا وقت کے تقاضوں کے مطابق دستور میں ترمیم کرتی رہی ہے، بلکہ حضرت قائد محترم کی امارت ہی کے دوران کئی مرتبہ دستور میں بنیادی تبدیلیاں ہوئیں اور ان تبدیلیوں میں حضرت شیرانی صاحب دامت برکاتہم کا باقاعدہ حصہ رہا ہے لہذہ آج کیسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دستوری ترامیم کسی شخصیت یا ذات کی ذاتی خواہشات پر مبنی ہیں، جبکہ پورے ملک کی مجلس عمومی نے باقاعدہ ان کی منظوری دی ہے،
اگر اب بھی آپ جماعت پر یا قیادت پر اعتراض کرتے ہیں تو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ
"حب شیرانی نہیں بلکہ بغض فضل الرحمن بول رہا ہے"
اور بغض کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے لئے ڈاکٹر سید مبین اختر سے بجلی کے شاٹس لگوانے پڑتے ہیں،
"خان"

Thursday, 25 August 2016

تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد

تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ضلع غربی کراچی کے چیئرمین کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کراچی اتحاد کا حصہ ہونے کےباوجود ایم کیو ایم سے خفیہ اتحاد کر لیا. یہاں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی مگر تحریک انصاف کے 4 ممبران نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو ووٹ دے کر چیئرمین بنوایا اور بدلے میں ضلعی وائس چیئرمین شپ حاصل کر لی. اور یہ اتحاد عین اس وقت ہوا ہے جب الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہا ہے. اس وقت بھی تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل کی وسیم اختر کے ساتھ ملاقات جاری ہے جس کا عمران اسماعیل نے خود اعتراف کیا ہے اور کہا کہ ملاقات پارٹی رہنما کی حیثیت سے نہیں کی. مطلب چیچوکی ملیاں کے ماجھو لوہار کی حیثیت سے کی ہوگی۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضلع جنوبی میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کی ہے۔
کوئی نعیم الحق کو تلاش کرے اور بتائے کہ یہ ہوتی ہے منافقت اور پیٹھ میں چھڑا گھونپنا،

"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"

"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"
ڈیر ہ اسماعیل خان میں گھرگھرگیس کی فراہمی"
_________
ڈسٹرکٹ کونسل ڈی آئی خان میں اپوزیشن لیڈر و جے یو آئی ف کے رہنما ء مولانا عبید الرحما ن نے کہا ہے کہ قا ئد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے 87 کروڑ روپے کے قدرتی گیس کی فراہمی پراجیکٹ پر آغا ز آج ظفر آبا د کا لو نی سے ہو گیا ہے اس منصو بہ میں ڈی آئی خان سٹی کے گیس سے محرو م اور مضافات کے 28علاقے شامل ہیں الحمد اللہ ہم نے الیکشن میں کیا ہوا وعد ہ پور ا کر دیا ہے اسی طر ح ڈی آئی خان ایئر پورٹ کی توسیع کیلئے بھی ایک ارب روپے کا فنڈ مختص ہو گیا ہے اس پر بھی جلد کام شروع ہوجائیگا ہم صرف وعدے نہیں عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ ڈیر ہ کی نواحی گنجان آبا دی ظفر آبا د کا لو نی کیلئے قدرتی گیس کی فراہمی کی افتتا حی تقریب سے خطا ب کر رہے تھے اس موقع پر پراجیکٹ کے انچار ج محکمہ سوئی گیس کے آفیسر اعجاز خان گنڈہ پور ، جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری احمد خان کامرانی ، محکمہ سوئی گیس کے ایگزیکٹو آفیسر انجینئر انور خان ، کامران جا ن ، جے یو آئی کے رہنما ء حا جی بشیر خا ن بلو چ ، مولانا قسمت اللہ قاری محمد امین ، لال محمد خرو ٹی ، قطب الدین گنڈہ پور، اور محمد یاسین قریشی بھی موجو دتھے مولانا عبید الرحمان نے کہا کہ پاک چین اقتصا دی راہداری منصو بہ پر کام شروع کر نے کیلئے ڈی آئی خان میں کیمپ لگا دیئے گئے ہیں یہ اربوں روپے کا میگا پراجیکٹ ہے اس کی تعمیر کے بعد ڈیر ہ میں اقتصا دی اور معاشی انقلاب آئیگا جس سے لو گو ں کا معیا ر زندگی بلند ہو گا اور خو شحالی آئیگی انہوں نے کہا کہ ڈیرہ کے تمام پراجیکٹ جمعیت علماء اسلام کی مرون منت ہیں اپوزیشن لیڈر کے پی کے مولانا لطف الرحمان ہر وقت ڈیرہ کے تر قیاتی منصو بہ کیلئے کو شا ں رہتے ہیں ہم کسی پر تنقید نہیں کر تے لیکن ہمارے تر قیاتی کا م ہی ان لو گو ں پر تنقید ہیں جو کام نہیں کر تے ہم پی ٹی آئی کی طر ح ہر وقت رونا دھونا نہیں کر تے اور نہ ہی دھرنوں کی سیا ست پر یقین رکھتے ہیں ہم کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں اور اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کیلئے کوشا ں رہتے ہیں اور یہی ہمارا منشور ہے انہوں نے کہا کہ ظفر آبا د کا لو نی کی عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ ان کا خیا ل رکھا ہمارا اور عوام کا تعلق کوئی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے ختم نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نوا زشریف نے اپنے دورہ کے دوران جتنے بھی تر قیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے ان پر انشاء اللہ ضرور عمل درآمد ہوگا اور ہم اس سے غافل نہیں ہیں قبل ازیں انہوں نے ظفر آبا د کو فراہمی گیس کے منصو بے کی تختی کی نقا ب کشائی کرکے کام کے آغاز کا افتتا ح کیا اور دعا مانگی مولانا عبید الرحمان جب ظفر آبا د کا لو نی پہنچے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری نے انہیں رواتی لنگی پہنائی۔
#سمیع_سواتی