Thursday, 25 August 2016

تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد

تحریک انصاف؛ ضلع جنوبی میں پیپلزپارٹی، غربی میں ایک کیو ایم سے اتحاد
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ضلع غربی کراچی کے چیئرمین کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کراچی اتحاد کا حصہ ہونے کےباوجود ایم کیو ایم سے خفیہ اتحاد کر لیا. یہاں اپوزیشن کو اکثریت حاصل تھی مگر تحریک انصاف کے 4 ممبران نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو ووٹ دے کر چیئرمین بنوایا اور بدلے میں ضلعی وائس چیئرمین شپ حاصل کر لی. اور یہ اتحاد عین اس وقت ہوا ہے جب الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہا ہے. اس وقت بھی تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل کی وسیم اختر کے ساتھ ملاقات جاری ہے جس کا عمران اسماعیل نے خود اعتراف کیا ہے اور کہا کہ ملاقات پارٹی رہنما کی حیثیت سے نہیں کی. مطلب چیچوکی ملیاں کے ماجھو لوہار کی حیثیت سے کی ہوگی۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضلع جنوبی میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کی حمایت کی ہے۔
کوئی نعیم الحق کو تلاش کرے اور بتائے کہ یہ ہوتی ہے منافقت اور پیٹھ میں چھڑا گھونپنا،

"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"

"جمعیتہ دعوؤں پر نہیں کام پریقین رکھتی ہے"
ڈیر ہ اسماعیل خان میں گھرگھرگیس کی فراہمی"
_________
ڈسٹرکٹ کونسل ڈی آئی خان میں اپوزیشن لیڈر و جے یو آئی ف کے رہنما ء مولانا عبید الرحما ن نے کہا ہے کہ قا ئد جمعیت مولانا فضل الرحمان کے 87 کروڑ روپے کے قدرتی گیس کی فراہمی پراجیکٹ پر آغا ز آج ظفر آبا د کا لو نی سے ہو گیا ہے اس منصو بہ میں ڈی آئی خان سٹی کے گیس سے محرو م اور مضافات کے 28علاقے شامل ہیں الحمد اللہ ہم نے الیکشن میں کیا ہوا وعد ہ پور ا کر دیا ہے اسی طر ح ڈی آئی خان ایئر پورٹ کی توسیع کیلئے بھی ایک ارب روپے کا فنڈ مختص ہو گیا ہے اس پر بھی جلد کام شروع ہوجائیگا ہم صرف وعدے نہیں عملی کام پر یقین رکھتے ہیں وہ ڈیر ہ کی نواحی گنجان آبا دی ظفر آبا د کا لو نی کیلئے قدرتی گیس کی فراہمی کی افتتا حی تقریب سے خطا ب کر رہے تھے اس موقع پر پراجیکٹ کے انچار ج محکمہ سوئی گیس کے آفیسر اعجاز خان گنڈہ پور ، جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری احمد خان کامرانی ، محکمہ سوئی گیس کے ایگزیکٹو آفیسر انجینئر انور خان ، کامران جا ن ، جے یو آئی کے رہنما ء حا جی بشیر خا ن بلو چ ، مولانا قسمت اللہ قاری محمد امین ، لال محمد خرو ٹی ، قطب الدین گنڈہ پور، اور محمد یاسین قریشی بھی موجو دتھے مولانا عبید الرحمان نے کہا کہ پاک چین اقتصا دی راہداری منصو بہ پر کام شروع کر نے کیلئے ڈی آئی خان میں کیمپ لگا دیئے گئے ہیں یہ اربوں روپے کا میگا پراجیکٹ ہے اس کی تعمیر کے بعد ڈیر ہ میں اقتصا دی اور معاشی انقلاب آئیگا جس سے لو گو ں کا معیا ر زندگی بلند ہو گا اور خو شحالی آئیگی انہوں نے کہا کہ ڈیرہ کے تمام پراجیکٹ جمعیت علماء اسلام کی مرون منت ہیں اپوزیشن لیڈر کے پی کے مولانا لطف الرحمان ہر وقت ڈیرہ کے تر قیاتی منصو بہ کیلئے کو شا ں رہتے ہیں ہم کسی پر تنقید نہیں کر تے لیکن ہمارے تر قیاتی کا م ہی ان لو گو ں پر تنقید ہیں جو کام نہیں کر تے ہم پی ٹی آئی کی طر ح ہر وقت رونا دھونا نہیں کر تے اور نہ ہی دھرنوں کی سیا ست پر یقین رکھتے ہیں ہم کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے ہیں اور اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کیلئے کوشا ں رہتے ہیں اور یہی ہمارا منشور ہے انہوں نے کہا کہ ظفر آبا د کا لو نی کی عوام نے ہمیشہ ہمارا ساتھ ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ ان کا خیا ل رکھا ہمارا اور عوام کا تعلق کوئی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے ختم نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نوا زشریف نے اپنے دورہ کے دوران جتنے بھی تر قیاتی کاموں کا اعلان کیا ہے ان پر انشاء اللہ ضرور عمل درآمد ہوگا اور ہم اس سے غافل نہیں ہیں قبل ازیں انہوں نے ظفر آبا د کو فراہمی گیس کے منصو بے کی تختی کی نقا ب کشائی کرکے کام کے آغاز کا افتتا ح کیا اور دعا مانگی مولانا عبید الرحمان جب ظفر آبا د کا لو نی پہنچے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری نے انہیں رواتی لنگی پہنائی۔
#سمیع_سواتی

جے یو آئی اس میدان میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی جدوجہد کررہی ہے

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان اور چین کے سیاسی برادرانہ تعلقات اقتصادی تعلقات کے نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا گھیراو ¿ کیا جارہا ہے، بھارت پاکستان میں مسائل پیدا کررہا ہے، 15سال قبل کہ دیا تھا کہ بھارت نے اپنی دفاعی لائن مغربی سرحدوں پر منتقل کردیا ہے،دینی مدارس کے خلاف سندھ حکومت کے امتیازی قانون کو مسترد کرتے ہیں، نہ ماضی میں ڈکٹیشن قبول کی ہے نہ آئندہ کریں گے۔متحدہ قومی موومنٹ دو آمروں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ امت مسلمہ کا یورپ سے معیشت میں کوئی مقابلہ نہیں مسلمانوں کو اگر دبایا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا معاشی نظام ہے، دہشت گردی مغرب کی ضرورت ہے جس کے لیے اسباب تیار کئے جاتے ہیں اور حالات تیار کئے جاتے ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نےجےیو آئی سندھ بزنس فورم کے صدر بابر قمر عالم کی جانب سے تاجر برادری کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری،جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو، نائب امیرقاری محمد عثمان، صوبائی سرپرست مولاناعبدالکریم عابد،مولانا عبدالقیوم ہالیجوی، ٹریڈڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر، سینئر نائب صدر وفاق ایوان ہائے صنعت وتجارت شیخ خالد تواب،معروف اسٹاک بروکر عقیل کریم ڈھیڈی، چیرمین کراچی انڈسٹریل الائنس میاں زاہد حسین، چیئر مین سندھ صراف جیولرز ایسوسی ایشن ہارون چاند، حاجی مسعود پاریکھ اور دیگر تاجر رہنما بھی موجود تھے. مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دینی مدارس کے حوالے سے سندھ حکومت نے امتیازی قانون بنایا ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں ،دینی مدارس کے خلاف قانون سازی کر کے سندھ حکومت نے اپنے ہی وعدے کی خلاف ورزی کی ہے ،مدارس رجسٹریشن پر جاری مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر کے امیتازی قانون بنایا گیا ہے ۔انہوں نے مزید کہنا تھا کہ دنیا میں تین قسم کی معشتیں ہیں، سرمایہ دارانہ، سوشلزم اور کمیونزم میں توازن نہیں کہیں ریاست سرمائے کی مالک ہے تو کہیں ریاست نے سرمائےکو نجکاری کی شکل میں منتقل کردیا ہے، دنیا میں سرمایہ دار بھی ہے اور محنت کش بھی، کسان بھی ہے اور جاگیردار بھی اسلام نے انہیں آپس میں معاہدوں کا ایک باقاعدہ نظام وضع کیا ہے، سرمایہ دار اور محنت کش حقوق اور بطور انسانی شرف کے برابر ہیں، انہوں نے کہا کہ 70سال گزرنے کے باوجود اسلامی نظام معیشت کو رائج نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے پاس سرمایہ دارانہ وسوشلزم نظام کا اور کیا رہ جاتا ہے، امت مسلمہ کا مغربی معیشت سے کوئی اقتصادی مقابلہ نہیں لیکن مسلمانوں کا ایک ہی گناہ ہے کہ ان کے پاس اپنا معاشی نظام ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہے، ترکی ارتقائ سے گزرریا تھا اس کے خلاف سازشیں شروع کردی گئیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان ہمارے گھر کی طرح ہے ہم سب نے مل کر اسے چلانا ہے، جے یو آئی کی اپنی سو سالہ تاریخ ہے اگلے سال ہم جے یو آئی کا صدسالہ کانفرنس منعقد کرنے جارہے ہیں جس میں کارکنان نے 30تا 50لاکھ افراد کی شرکت کا عزم ظاہر کیا ہے، جے یو آئی تاجروں اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے. مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے حکومت تاجروں کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں بلیک میل کرتی ہے اور ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتی ہے، پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بننا ہے جس کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جے یو آئی اس میدان میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی جدوجہد کررہی ہے تاجر برادری جے یو آئی کے ساتھ مل کر ملکی ترقی اور سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرے. ایس ایم منیر، خالد تواب اور میاں زاہد حسین نے عشائیے سے خطاب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمن جس طرح اپنی سیاسی تدبر سے انتشار کو ختم اور جمہوریت کو درپیش خطرات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس کی ملکی سیاست میں مثال نہیں ملتی انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ تاجروں سے ملاقاتیں باقاعدگی سے ہونی چاہیے تاکہ تاجروں کے مسائل کے حل میں ان کی آواز بن سکے. مولانا عبد القیوم یالیجوی نے آخر میں دعا کرائی۔

Sunday, 14 August 2016

’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ

’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ
ازقلم: حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ
’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘
یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:
مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ
’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘
تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:
مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔
اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔
مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:
’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھاا ور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:
’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘
الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر 1975ء کے دورن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔
بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔

Saturday, 13 August 2016

کیا آپ نظریاتی جمہوری جماعتوں کی جدوجہد کو سمجھتے ہیں؟

سلیم جاوید...
پاکستان میں نظریاتی جمہوری جماعتیں صرف دو ہیں-ملکی انتظام میں دین کا نفوذ چاہنے والی جمیعت علماء اسلام اور دین کو ملکی اتنظام سے الگ رکھنے کی داعی اے این پی-( خوشقسمتی سے دونوں جماعتیں، اپنی ہئت میں سیکولر ہیں-میرے نزدیک سیکولر کا معنی عدم تشدد ہے)-باقی سیاسی جماعتیں، یا تو روٹی، کپڑا اور مکان کے سلوگن پہ سیاست کرتی ہیں یا میگا پراجیکٹس یا روزگار وغیرہ کے نعرے پر، تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا کسی خاص نظریے سے تعلق نہیں ہوتا- یہ عام انسانی ضروریات ہیں جو ہندو و مسلم سب کیلئے ہیں اور اس پہ کسی بھی نظریاتی جماعت کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟-
( معاف کیجئے، 40 جماعتوں کا وہ ٹولہ، جو خانقاہ آبپارہ کے حکم پہ وقتا" فوقتا"اکٹھے ہوکر، دنگل سجایا کرتا ہے، انکو میں نظریاتی جمہوری فہرست میں شمار نہیں کرتا)-
اسلامی نظریاتی جماعت کا مسئلہ وہاں شروع ہوتا ہے جب وہ قرآن و حدیث کے نظام کو قومی فلاح کا اصل نظام گردان کر، اسکے نفاذ کی کوشش شروع کرے-
مثلا" پاکستان میں سودی نظام کی مثال لیں- سود، نہ صرف سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ اسی سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا ہے-ضمنا"، اسی سے فحاشی، ڈاکے اور انتہا پسندی پھیلتی ہے-
اب صورتحال یوں ہے کہ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئ ہے- مثلا" آج ایک آدمی حج پہ جانا چاہے تو وہ زمانہ نہیں کہ اپنا بستر اٹھائے اور پیدل مکہ کو چل دے-ویزے، ٹکٹ ، بنک سے ہوکر جانا پڑے گا اور گویا حج کرنے میں بھی سود ی نظام سے تلوث کرنا پڑتا ہے-( یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب میں اسکو کوئ اور خوش کن نام دے دیا جائے)-
عوام بچوں کی طرح کم فہم ہوتے ہیں-انکی اکثریت کو سود کی دنیاوی قباحت کا بھی علم نہیں ہوتا اورنہ انہیں اس نظام کے بدلنے سے کوئ غرض ہوتی ہے-مگر اہل دانش، والدین سماں ہوتے ہیں،وہ بچوں کی چاہت کو نہیں، انکے مستقبل کو سوچ کر، انکی رہبری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
سوچنے سمجھنے والے دینی حلقے، پاکستان میں اس سودی نظام بارے کیا سٹریٹیجی رکھتے ہیں؟ اسکا ایک جائزہ لیتے ہیں-
1-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو سود کے کی قباحت کو واضح کرنے، بڑے بلند پایہ علمی مضامین لکھ کرسمجھتا ہے انہوں نے اپنا حق ادا کردیا-
2-ایک وہ طبقہ ہے کہ جو عوام میں دینی جذبات بیدار کرنے کی محنت میں مگن ہے کہ عوام میں ایمان جاگے گا تو وہ خود ہی سود چھوڑ دیں گے-
3-ایک وہ دینی طبقہ ہے جو وسمجھتا ہے کہ جبتک حکومتی سطح پر سودی نظام ختم نہیں ہوگا، لوگ پستے رہیں گے-یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار پہ گرفت چاہتا ہے- مگراسمیں پھر تین قسم کی سوچ ہے-
1-ایک وہ لوگ جو بزور بازو، حکومت پہ قبضہ کرکے،سودی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں-یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں-
2-پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جنکو حکومت میں آنے کیلئے متفقہ آئنی طریق کار کے ساتھ ساتھ، پس پردہ سازشیں یا فوج کی مدد سے بھی عار نہیں-انکی نیت چاہے اچھی بھی ہوپر ہمارے نزدیک یہ رویہ غلط ہے-
5-تیسرا طبقہ ہمارا ہم ذہن ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم عوام کی نمائندہ پارلمنٹ کے ذریعے، سود کے خاتمے کا دیرپا حل ڈھونڈھیں گے-مگر اس طبقے کو بھی "تدریج" کا سنت طریقے کا فہم ہونا ضروری ہے کہ انسانی معاشرے،بٹن دبانے سے نہیں بدلا کرتے بلکہ پودوں کی طرح، گوڈی پنیری کرنا پڑتی ہے-رسول پاک نے حجۃ الوداع پہ ہی سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا حالانکہ اللہ اور رسول کو پہلے سے اسکی حرمت کا علم تھا-
(مذکورہ بالا ساری بحث میں، صرف "سود" کے مسئلے کو بنیاد بنا یا گیا ہے-علی ھذا القیاس، باقی معاشرتی مسائل پہ بحث ہوگی)-
اب آپ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ کیا آپ اجتماعی معاشرتی جدوجہد جسے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں، اس کے حامی ہیں بھی یا نہیں؟
اور کیا آپ "روٹی کپڑا مکان" کیلئے جدوجہد پر ہی قناعت کریں گے یا اسکے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد بھی کرنا چاہتے ہیں؟
اور اگرآپ ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، مثلا" سود ختم کرنا چاہتے ہیں تو ملکی اختیار تک پہنچنے کیلئے، کون سے طریقہ کار سے ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؟-
آپ بیشک اپنے ہم ذہن گروپ سے تعلق رکھیں، مگر جمیعت علماء کا طریق وہ ہے جو آخر میں بیان کیا گیا اور اسے اپنا کام کرنے دیں-
ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنا آسان ہے بشرطیکہ، اس نظام کو کچھ عرصہ اطمینان سے چلنے دیا جائے-
کتنا عرصہ؟ میرا خیال ہے، اگرغیر جمہوری سازشوں کے وار نہ ہوں تو صرف تین مکمل جمہوری ادوار ہی دینی نظام لاگو کرنے کو کافی ہیں-
کیونکہ اس نظام میں آپکو پارلمنٹ کی 300 سیٹیوں میں سے ایک ہی سیٹ کافی ہے بشرطیکہ آپکا وکیل( ممبرپارلیمان)، مولانا فضل رحمان جیسا آدمی ہو-یعنی، نہ صرف اپنی بات دلیل سے کرسکتا ہو بلکہ اپنی خوئے دلنوازی سے ممبران پارلمنٹ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہو اور ممبران اس پہ اعتماد کرتے ہوں-
کیوں؟
کیونکہ ممبران پارلمنٹ چاہے جاہل ہیں یا مفاد پرست ہیں مگر ہیں تو بہرحال مسلمان ہی-انکو اسلامی قوانین سے صرف چار وجہ سے پرابلم ہوسکتا ہے ورنہ کوئ بھی اسلامی قانون منظور ہوجائے، انکوکوئ ذاتی مسئلہ ہرگزنہیں ہوتا-
ان چار وجوہات پہ ، بشرط فرصت، کسی اگلی نشست میں بات ہوگی ان شاء اللہ-

سائبر کرائم بل۔ مجرموں میں اچھے برے کی تفریق

\\ایسے کوئی شخص پستول،گن،خنجر وغیرہ استعمال کرکے کوئی جرم کرتا ہے، ایسے ہی ‫#‏سائبر‬ کرائم، وہ جرائم کہلاتے ہیں جو کمپیوٹر یا الیکٹرانک ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کیے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ”سائبرکرائم“ ہر ایسی سرگرمی جس میں ‫#‏کمپیوٹر‬ یا الیکٹرانک ذرائع کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے، یا کوئی بھی ایسی سرگرمی سرانجام دی جائے جس کی رو سے اسلام یا پاکستان کی ساکھ یاکسی معزز شہری کو نقصان پہنچایا جائے۔ یا کوئی بھی غیرقانونی اور غیرآئینی کام سرانجام دیاجائے۔
ابھی حال ہی میں قومی اسمبلی سے سائبرکرائم بل منظور ہونے کے بعد باقاعدہ قانونی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس بل کی رو سے لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، استحصال، سائبرحملے، سائبردہشتگردی،فحش پیغامات،فحش ویڈیوز، دھمکی آمیز پیغامات،ای میلز، کسی کے ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ جرم تصور ہوگا۔چنانچہ اس بل کی رو سے مندرجہ ذیل امورنہ صرف جرم تصور ہوں گے بلکہ ان پر جسمانی اور مالی سزائیں بھی دی جاسکیں گیں۔ پاکستان میں آئے روز نئے نئے قوانین بھی بنتے رہتے ہیں اور نئی نئی فورسز بھی بنائی جاتی رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود جرائم میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کبھی تو قانون صرف قانون کی حد تک فائلوں میں ہی ہوتا ہے، اور اگر فائلوں سے باہر نکل کر اس پر عملدرآمد شروع بھی ہوئے جائے تو اچھے اور برے مجرم کی تفریق آڑے آجاتی ہے، ایک ہی قانون کی غریب اور امیر، سرمایہ داراور مزدور،جاگیر دار اور مزارع، سیاستدان اور عوام کے لئے الگ الگ تشریح ہوتی ہے۔ایک جرم اگر امیر کرے تو اسے اور انداز سے ڈیل کیا جاتا ہے جبکہ وہی جرم اگر غریب کرے تو اسے حقیقی مجرم کے طورپر ڈیل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی مزدور،مزارع یا عوام میں سے کوئی مجرم ہو تو اس کے ساتھ اور رویہ ہوتا ہے جبکہ وہی جرم اگر سرمایہ دار،جاگیردار یا سیاستدان اور ان کی اولادیں کرلیں تو نہ صرف قانون بلکہ پولیس،سیکورٹی اداروں اور متعلقہ حکام کا رویہ ان کے ساتھ اور ہوتا ہے۔اگر کوئی چھوٹا کاروباری معمولی سا جرم کرلے تو وہ قانون مجرم ٹھہرتے ہوئے پوری پوری سزا کا بروقت مستحق ہوجاتا ہے جبکہ وہی جرم بڑے پیمانے پر کوئی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنی کرلے تو نہ صرف اس پر پردہ ڈالا جاتا ہے بلکہ کمپنی کی ساکھ کو بچانے کے لئے مکمل صرفِ نظر بھی کردیا جاتا ہے۔
چنانچہ مجرموں میں اس طرح کی تفریق کرنا ہی قانون کو غیر موثر بنادیتی ہے اور پھر چند سال کے بعد ایک نیا قانون یا فورس بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔سائبرکرائم بل کی بھی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائبرکرائم بل کا اطلاق ٹی وی چینلز پر نہیں ہوگا۔ یعنی ایک عام شہری فیس بک پر اپنے چند سو فرینڈ تک کوئی غیرقانونی سرگرمی،فحاشی،توہین،بے عزتی کرے گا تو وہ مجرم ٹھہرے گا جبکہ ٹی وی چینل کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کرے، لوگوں کی پرائیویسی پر کیمرے لے کر ڈور پڑے،من گھڑت،جھوٹے پروپیگنڈے کرے تو یہ جرم تصور نہیں ہوگا(شاید اس لئے کہ یہ سرمایہ داروں کا ادارہ ہے اور اس سرمائے کا ایک بڑا حصہ خزانے میں بھی جمع کراتا ہے)۔ سائبرکرائم بل کی چند شقیں:
۱۔ اگر کوئی شخص ‫#‏فرقہ‬ واریت اور مذہبی منافرت پھیلائے تو اسے سات سال قید ہوگی۔(جبکہ یہی جرم بہت بڑے پیمانے پر ٹی وی چینل کرے، یا تین چار مختلف فرقوں کے مولوی ٹاک شومیں بٹھا کر انہیں لڑائے اور پوری قوم کودین اسلام سے کنفیوز کرے تو جرم نہیں)۔
۲۔اگر کوئی شخص غیر اخلاقی تصاویر شائع کرے تو سات سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ہوگا(جبکہ ٹی وی چینل تصویر تو کیا غیراخلاقی ویڈیو بھی چلادے تو یہ جرم نہیں ہوگا)۔
۳۔اگر کوئی شخص ‫#‏سپمینگ‬ کرے، یعنی بغیر اجازت کسی کو موبائل یا انٹر نیٹ پر کاروباری یا تجارتی تشہیر کا میسج کرے،اگرچہ وہ میسج حقائق کے مطابق ہو تو اسے تین ماہ قید ہوسکتی ہے(جبکہ ٹی وی چینل ایسے اشتہار بھی چلائے جن میں مٹی کو سونا بناکرپیش کیا گیا ہو، پانی کی بوتل پٹرول سے مہنگی کرکے فروخت کرنے کے لئے من گھڑت باتیں بنائی گئی ہوں، یا کوئی بھی تجارتی چیز حقائق کے برخلاف مشتہر کرے تو یہ جرم نہیں)۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ خود موبائل کمپنیاں صارفین کو دن میں پانچ سے دس کاروباری تشہیر کے میسج روزانہ کرتی ہیں، بلکہ اب توکمپیوٹر کے ذریعے آٹو کال بھی کرتی ہیں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں، آدمی کسی اہم کام، پڑھائی وغیرہ میں مصروف ہوتا ہے، یا نیند میں ابھی گیا ہی ہوتا ہے کہ فون پر گھنٹی بجتی ہے اور موبائل کمپنی کے کسی پیکج کی تشہیر کی کال آرہی ہوتی ہے۔
۴۔اگر کوئی شخص کسی کا کوئی کارٹون، ‫#‏کامک‬(Comic) شیئر کرے گاتو اسے ایک سال قید کی سزا ہوگی۔(لیکن ٹی وی چینلز کے ڈمی میوزم اور بیہودہ جملوں کے تبادلے اسی طرح چلتے رہیں گے، ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا)۔
۵۔اگر کوئی شخص کسی کی تصویراس کی اجازت کے بغیر شیئر کرے گا تو ایک سال قید کی سزا ہوگی۔(جبکہ ٹی وی کے کیمرہ مین جب چاہیں، جہاں چاہیں، جیسے چاہیں، جس کو چاہیں، زبردستی اپنی کیمرے کی آنکھ سے فلمبندکرکے دکھاسکتے ہیں)۔
سائبرکرائم کی روک تھام کے لئے پچھلے آٹھ دس سے ایک ادارہ( نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائم) پہلے سے ہی کام کررہا ہے، جہاں آپ اس ادارے کی ویب سائٹ (www.nr3c.gov.pk) آن لائن شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ (سیدعبدالوہاب شیرازی)

 

مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں پر اوریا مقبول جان کا ایمان افروز کالم . .

 

مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں پر اوریا مقبول جان کا ایمان افروز کالم . .

سب ساتهی كالم كو ضرور پڑهے اور هوسكے
تو شیئر بهی كرے . . .
مولوی اور معاشرہ
شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے.

Tuesday, 9 August 2016

میڈیا، ملٹری اورمولانا فضل رحمان

میڈیا، ملٹری اورمولانا فضل رحمان


سلیم جاوید


بات کچھ خاص نہیں، صرف آپکے ساتھ کچھ دیر"برین سٹارمنگ" کرنا ہے، جس کے لئے میں نے میڈیا، ملٹری اورمولانا کی مثلث پسند کی ہے-اس لئے کہ مولانا ہی سینئرترین سیاستدان ہے)1981ء سے(-میں،ان تینوں کوعنوان بناکر،اختصار کے ساتھ چند سوالات دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں۔اوراس بارے میں ان کے علم سے مستفید ہونا چاہتا ہوں-میڈیا کے بارے میں کچھ معروضات....میڈیا وہ دجالی منتر ہے جوکسی بھی ’کوڈو‘ کو ’عالم چنا‘ بناسکتا ہے۔ اس لئے صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں، اس عفریت کو خفیہ ایجنسیاں ہی کنٹرول کرتی ہیں۔ لہٰذا، پہلے میڈیا کے حوالے سے چند باتیں:1-1988ء میں، پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے جن جرنیلوں نے آئیجے آئی بنائی تھی، ان کا اعترافی بیان ریکارڈ پر ہے کہ اس کے لئے سیاستدانوں میں رقم بانٹی گئی۔ نواز شریف کو 35 لاکھ، جاوید ہاشمی کو 5 لاکھ، قاضی حیسن احمد کو 5 لاکھ وغیرہ،ایک پوری لسٹ عدالت کو دی گئی۔ پیسے نہ لینے والے سیاستدانوں میں مولانا شاہ نورانی، ولی خان اورمولانا فضل رحمان تھے۔ جن لوگوں نے پیسے نہیں لئے، ان کو شاباش ہو، اور جنہوں نے لئے،ان کا بھی کوئی گناہ نہیں )مجھے اگردشمن کو زیر کرنا ہے توکالاچور بھی امداد کرے، میں کیوں انکارکروں؟( لیکن سوال یہ ہے کہ آرمی نے قوم کا یہ پیسہ کس اختیار کے تحت سیاست میں لگایا؟ اس پہ کبھی کوئی اینکر بولے گا؟2-جاوید چوہدری کا کالم ریکارڈ پر ہے، کہ جنرل اسلم بیگ نے مولانا فضل رحمان کوجی ایچ کیو میں بلا کر،اپنے صدارتی امیدوار، غلام اسحق خان کی حمایت کے لئے دھمکایا مگر،ایسے میں کہ جب بےنظیر سمیت سب جھک گئے تھے، مولانا نے اپنے امیدوار، نوابزادہ نصراللہ کودستبردار کرنے سے انکار کردیا-اسلم بیگ بھی زندہ ہے اورجاوید چوہدری بھی، کیا وہ اپنے پروگرام میں اسلم بیگ کو بلا کر پوچھے گا کہ ایک سرونگ آرمی چیف کیوں یہ سیاست کر رہا تھا؟3-مشرف دورکے وفاقی وزیرقانون،جسٹس افضل حیدر نے’تحریک بحالی جمہوریت‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں صفحہ 77 پر، آئی ایس آئی کے مالی امور کے نگران،جنرل نصرت کے حوالے سے لکھا کہ سوائے مولانا فضل رحمان کے، سب سیاسی لیڈر، ایجنسیوں سے رقوم لیتے رہے۔ کیا کوئی اینکرنی صاحبہ، جنرل صاحب کو یا باقی سیاستدانوں کو بلا کر پوچھیں گی کہ یہ رقم کیوں لی/دی گئی اور کس اختیار کے تحت؟4- میڈیا میں’کسی‘نے ایک مہم چلائی تھی کہ مولانا نے ڈیرہ میں5 ہزار کنال، آرمی کی زمین اپنے نام کروا لی-وہ مہم بالکل خاموش ہو گئی- اگرچہ وہ زمین مولانا نے نہیں لی تھی لیکنیہ سچ تھا کہ کچھ غیر متعلقہ لوگوں کو الاٹ ہوئی تھی-ظاہر ہے کہ زمین لینے والوں کا کوئی قصور نہیں)کوئی مفت میں مال دے توکیوں نہ لیں؟( پوچھا تو آرمی سے جانا چاہئے کہ شہدائے کارگل کی زمین، کس قاعدے قانون کے تحت، یا کس کارنامے کے تحت آپ نے غیر متعلقہ لوگوں کو الاٹ کی؟کیا کوئی دلیر اینکر، آرمی پراپرٹی کے کلرک کو ہی بلاکر، کوئی وضاحتی ڈاکومنٹ دکھائے گا؟اب آرمی کے واسطے سے چند باتیں:مولانا اور فوج کا ٹکراو ¿، شروع دن سے ہے-1-جنرل ضیا نے مولانا کو مارشل لا کے خلاف تحریک چلانے پر 1983ء میں "بی کلاس" جیل کی سزا دی تھی-)حالانکہ لیڈروں کو"اے کلاس" ملتی ہے(2-پرویز مشرف نے شروع دور میں دفعہ 6 لگا کر) غداری کی دفعہ جس کی سزا موت ہے(،مولانا کو چھ ماہ قید رکھا-)بعد میں شاید مولانا کی ضرورت پڑ گئی(- اس سارے دور میں جمیعت کے اراکین، پریس کانفرنس اور پارلیمنٹ میں کھلے عام فوج پر تنقید کرتے رہے-مولانا پہ 4 بار قاتلانہحملہ ہوا، لوگ اسے بھی"سزا" ہی سمجھتے ہیں-3-2014ء میں سانحہ پشاور کے بعد، ساری سیاسی قیادت نے متفق ہوکر، اکیسویں ترمیم پر دستخط کئے جن میں فوجی عدالتوں کا قیام کرنا تھا)اس اتفاق کے پیچھے"چھڑی" تھی(- صرف مولانا نے دستخطنہیں کئے اور باجود یقین دہانیوں کے، اب تک نہیں کئے-عجیب بات یہ کہ 2002 سے لیکر 2012 تک، ریاست تقریباً 20 لاکھ روپے ماہانہ، مولانا کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کرتی رہی-سوال یہ ہے کہ فوج،مولاناکو اس قدر سیکیورٹی دینے پر کیوں مجبور ہے؟ہمیں تو وجہ معلوم ہے پر کسی اور کے منہ سے بھی سننا چاہیں گے۔اب مولانا کے واسطے سے چند باتیں:1-بے حساب ڈیزل پرمٹ لینے کی وجہ سے ان کومولانا ڈیزل کالقب ملا ہے- ہر کسی کو معلوم ہے کہ مولانا کے نام سے 1996ءمیں ہزاروں ٹینکر سپلائی کئے گئے-آج 20 سال ہو گئے، کسی ذہین صحافی نے کھوج نہیں لگایا کہ کیا مولانا کا کوئی اپنا پٹرول پمپ ہے یا پاکستان میں کس پمپ کوڈیزل بیچا؟ میرا سوال ہے کہ مولانا خود اس راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا؟ ہوسکتا ہے، اس راز سے پردہ اٹھانے پر، عالمی عدالت میں ’ کسی ‘ پر مقدمہ چلنے لگے مگرحقیقت توظاہر کرنا چاہئے کہ اس الزام کی بنا پہ علماءکی عزت داو پر لگی ہے-2-مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا۔ 3 اگست 2014کو تحریک انصاف نے مولانا قانونی نوٹس بھیج دیا کہ 15 دنوں میں اس بات پرمعافی مانگیں ورنہ 1ارب روپے ہرجانہ ادا کریں-سب کا خیال تھا کہ مولانا، عمران خان کی طرح کہہ دے گا کہ یہ صرف سیاسی بیان تھایا اس لفظ سے میرا یہ مطلب نہیں تھا وغیرہ- مگرمولانا نے تو دھڑلے سے چیلنج قبول کیا اورپریس میں بیاندیا کہ مجھے اسی دن کا انتظار تھا اور اب میں عدالت میں اپنا الزام ثابت کروں گا۔ اس کے بعد،تحریک انصاف چپ ہوگئی جس سے اتنا تو معلوم ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی خاص بات مولانا کے علم ہے تو پبلککیوں نہیں کرتا اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ بات کہتا کیوں ہے؟اوپر میں نے مختصر الفاظ میں جو حقائق بیان کئے ہیں، اسکے لئے صدیوں کی تاریخ کنگھالنے کی ضرورت نہیں-اس تحریر سے میرا مدعا صرف یہ ہے عقل کی جو نعمت خدا نے ہر کسی کو عطا کی ہے،اسے ٹی وی اینکروں کی رکھیل نہ بنائیں، اس لئے کہ’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘-