Wednesday, 27 July 2016

بہی خواہانِ مولانا فضل رحمان کو مبارکباد نمبر دو

بہی خواہانِ مولانا فضل رحمان کو مبارکباد نمبر دو
(بربنائے عدد قومی نمایندگی-نواز شریف،آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، مولانا فضل رحمان)
سلیم جاوید کی ایک شاہکار تحریر
________________________________
مولانا فضل رحمان کے چاہنے والوں کو دوسری مبارکباد یہ دوں گا کہ آپکا لیڈر وہ جیئنون لیڈر ہے، جسکا انتخاب، مجلس عاملہ کے اس کڑے ماحول میں ہوا جس میں بزرگ علماء بھی آپس میں تلخ ہوگئے تھے-اس تلخی سے ہی تو ثابت ہوا کہ جمیعت کے عہدوں کی نامزدگی، نہ ڈرامہ ہوتا ہے، نہ مک مکا اور نہ ہی کسی کے ٹھپہ لگانے سے ہوا کرتی ہے-
دوسری طرف دیگر کوئ لیڈر ایسا نہیں ہے ، جس کے انتخاب سمے،اسکے مقابل کسی دوسرے بندے کا نام تک لیا گیا ہو-
مزید توجہ چاہتا ہوں-سیاسی پارٹیوں کے بڑے لیڈر، کبھی اپنے باہمی اختلاف کی بنا پر، ہم خیال کارکنوں کو لیکرالگ دھڑے بنا لیا کرتے ہیں-مگر سیاسی تاریخ کی شاید یہ واحد مثال ہے کہ کسی کارکن کی خاطر،کسی جماعت کے دو ایسے بڑے لیڈروں نے دھڑا بنالیا ہو جوخود دنیاوی زندگی سے مستغنی رہتے ہوں-
جماعت کے سیکٹری جنرل کیلئے کسی کارکن کی نامزدگی کرنا تھی- حضرت درخواستی صاحب، جو جمیعت کے امیر تھے، وہ اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق کو بنانا چاہتے تھے اور خواجہ خان محمد صاحب بھی اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ مولانا فضل رحمان کو بنانا چاہتے تھے-اس بات پہ جمیعت کے دو دھڑے ہوگئے-پھر یہ اعزاز بھی مولانا نے حصے میں آیا کہ چند برس بعد، پہلے امیر نے بھی واپس انکی سرپرستی کردی-یعنی آپکا لیڈر، آپکی جماعت کے دونوں دھڑوں کے امراء کا متفقہ انتخاب ٹھہرا ہے-
اسکے بالمقابل،مذکورہ بالا لیڈروں کی لیڈری کی حقیقت سب کو معلوم ہے-
پہلے کو جنرل جیلانی نے گود لیا اور جنرل اسلم بیگ کے پیسے نے لیڈر بنایا-
دوسرے کو سادہ کاغذ پہ لکھی، بیوی کی طلسمی وصیت نے پارٹی لیڈر بنادیا-
تیسرے کو، جنرل حمید گل نے ایک صحافی کے مشورے سے لانچ کیا-پھرجنرل پاشا نے دبئ کے صحرا میں بلاکر، لیڈری کا نسخہ پلایا-مگر خفیہ ایجنسیوں کے دو سربراہوں کی مشترکہ کوشش نے اسے لیڈرتو نہیں البتہ سیلیبرٹی ضرور بنا دیا ہے-
چوتھے کو کس نے لیڈر بنایا۔ کیسے بنایا؟ یہ ایک کائناتی معمہ ہے-
اس لئے، جمیعت کے دوستو! ببانگ دہل کہہ سکتے ہو کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے-
کوانٹٹی پہ نہیں، کوالٹی پہ ناز کیجئے